جمادات کی طاعت اور تسبیح وسلام

جمادات کی طاعت اور تسبیح وسلام

جس طرح نباتات حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زیر فرمان تھے اسی طرح جمادات ( ۴) بھی

آپ کے مطیع تھے۔ چنانچہ شجرکا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو سلام کر نا اور آپ کی رسالت پر شہادت دینا پہلے آچکا ہے۔سخت پتھر وں کا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے نرم ہو جانا اور صخرۂ بیت المقدس (۱ ) کا خمیر کی مانند ہو نا اس کتاب میں آگے آئے گا۔
حضرت علی ( ۲) کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجَہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں کہ میں نبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ساتھ مکہ میں تھا ایک روز ہم اس کے بعض نواح میں نکلے جو پہاڑ یادرخت آپ کے سامنے آتا تھا وہ کہتا تھا:
’’ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ ‘‘ (۳ )
حضرت ابو ذَر (۴ ) رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کابیان ہے کہ ایک روز میں دوپہر کے وقت رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دولت خانہ پر حاضر ہوا نبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمتشریف فرمانہ تھے۔میں نے خادم سے دریافت کیا۔اس نے کہا کہ حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے گھر میں ہیں ۔میں وہاں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں پہنچا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بیٹھے ہو ئے تھے اور کوئی آدمی آپ کے پاس نہ تھا۔مجھے اس وقت یہ گمان ہوتا تھا کہ آپ وحی کی حالت میں ہیں ۔میں نے آپ کو سلام کیاآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے میرے سلام کا جواب دیاپھر فرمایا: تجھے کیا چیز یہاں لائی؟ میں نے عرض کیا: اللّٰہ اور رسول کی محبت۔ آپ نے مجھ سے فرمایا کہ بیٹھ جا۔ میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پہلو میں بیٹھ گیانہ میں آپ سے کچھ پوچھتا تھا اور نہ آپ مجھ سے کچھ فرماتے تھے۔میں تھوڑی دیر ٹھہرا کہ اتنے میں حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جلدی جلدی چلتے ہوئے آئے انہوں نے رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو سلام کیا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سلام کا جواب دیا پھر فرمایا: تجھے کیا چیز یہاں لائی؟ حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے عرض کیا: اللّٰہ اور رسول کی محبت۔ آپ نے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ بیٹھ جا۔وہ ایک بلند جگہ پر نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مقابل بیٹھ گئے۔ پھر حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ
آئے۔انہوں نے بھی ایسا ہی کیا اور رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بھی ویساہی فرمایا۔ حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پہلو میں بیٹھ گئے۔ پھر اسی طرح حضرت عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ آئے اور حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پہلو میں بیٹھ گئے۔اس کے بعد رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سات یا نو یا اس کے قریب سنگریزے لئے۔ان سنگریزوں نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مبارک ہاتھ میں تسبیح پڑھی یہاں تک کہ آپ کے ہاتھ میں ان میں شہدکی مکھی کی مانند آواز سنی گئی (پھر آپ نے ان کو زمین پر رکھ دیا اور وہ چپ ہو گئے ) پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے وہ سنگریزے مجھے چھوڑ کر حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دیئے۔ان سنگریزوں نے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہاتھ میں تسبیح پڑھی۔ (یہاں تک کہ میں نے شہد کی مکھی کی مانند ان کی آواز سنی ) پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے وہ کنکر حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے لے کر زمین پرر کھ دیئے۔وہ چپ ہوگئے اور ویسے ہی سنگریزے بن گئے۔پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکو دیئے۔ ان کے ہاتھ میں بھی انہوں نے تسبیح پڑھی جیسا کہ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہاتھ میں پڑھی تھی (یہاں تک کہ میں نے شہد کی مکھی کی مانند ان کی آواز سنی ) پھرآپ نے زمین پر رکھ دیئے وہ چپ ہو گئے۔پھر آپ نے حضرت عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دیئے۔ان کے ہاتھ میں بھی انہوں نے تسبیح پڑھی جیسا کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکے ہاتھ میں پڑھی تھی ( یہاں تک کہ میں نے شہد کی مکھی کی مانند ان کی آواز سنی ) پھر آپ (۱ ) نے لے کر ان کو زمین پر رکھ دیاوہ چپ ہو گئے۔ (پھر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ یہ نبوت (۲ ) کی خلافت ہے) ( ۳)

حضرت امام محمد ( ۱) باقررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں کہ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بیمار ہو ئے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام ایک خوان لائے جس میں (بہشت کے ) انا ر اور انگور تھے۔ جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تنا ول فرمانے کے لئے ان میں سے کچھ اٹھا یا تو اس میں سے سُبْحَانَ اللّٰہ کی آواز آئی۔ ( ۲)
یہ خارقِ عادت (تَسبِیُح الطَّعَام ) بہت دفعہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اصحاب کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے بھی ظہور میں آیا ہے۔ چنانچہ ـحضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’ ہم البتہ ( ۳) بے شک طعام کی تسبیح سنا کر تے تھے جس حال میں کہ وہ کھایا جا تا تھا۔ ‘‘ (۴ )
حضرت ابو اَسید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت (۵ ) ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حضرت عباس بن عبد المُطَّلِب سے فرمایا: اے ابوالفَضْل! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کل تم اور تمہارے (۶ ) بیٹے اپنے مکان سے نہ جائیں یہاں تک کہ میں تمہارے پاس آؤں کیونکہ مجھے تم سے ایک کام ہے انہوں نے آپ کا انتظار کیایہاں تک کہ آپ چاشت کے بعد تشریف لائے۔ آپ نے فرمایا:
’’ اَ لسَّلامُ عَلَیْکُم ‘‘
انہوں نے جواب دیا:
’’ وَعَلَـیْکُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ ‘‘
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: تم نے کیونکر صبح کی؟ انہوں نے عرض کی: ’’ بِحَمْدِ اللّٰہہم نے بخیر یت صبح کی۔ ‘‘ پس آپ نے ان سے فرمایا: نزدیک ہوجاؤ! وہ ایک دوسرے کے نزدیک ہوگئے یہاں تک کہ جب وہ آپ صَلَّی

اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے متصل ہوگئے تو آپ نے اپنی چادر مبارک سے ان کو ڈھا نپ لیا اور یوں دعا فرمائی: ’’ اے میرے پر ور دگار! یہ میرا چچا اور میرے باپ کا بھائی ہے اور یہ میرے اہل بیت ہیں تو ان کو دوزخ کی آگ سے یوں چھپا لینا جیسا کہ میں نے ا ن کو اپنی چادر میں چھپا لیا ہے۔ ‘‘ اس پر گھر کی چو کھٹ اور دیو اروں نے تین بار آمین کہی۔ (۱ )
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ( ۲) ہے کہ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ہِ احد پر چڑھے اور آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر وعمر وعثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم تھے۔ وہ پہاڑ ہلاآپ نے اسے اپنے پائے مبارک سے ٹھو کر لگا کر فرمایا: تو ساکن رہ کیونکہ تجھ پر نبی اور صدیق اور شہید ہیں ۔ ( ۳)
حضرت عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت (۴ ) ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کوہِ ثَبِیْر پر تھے اور آپ کے ساتھ حضرت ابو بکرو عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما تھے اور میں تھا۔ وہ پہاڑ ہلایہاں تک کہ اس کے پتھر نیچے دامن کو ہ میں گر پڑے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے پائے مبارک سے ٹھو کر لگا کر فرمایا: اے ثَبِیْر! ساکن رہ کیونکہ تجھ پر نبی اور صدیق اور دو شہید ہیں۔(۵ )
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ جس وقت نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور حضرت ابو بکر وعمر وعثمان و علی وطَلْحہ وزُبیر کو ہِ حراء پر تھے وہ پہاڑ ہلا۔ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اے حرائ! ساکن رہ کیونکہ تجھ پر نہیں ہیں ( ۶) مگر نبی یا صدیق یاشہید۔ایک روایت میں سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا ذکر ہے اور حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا ذکر نہیں اور ایک روایت میں سوائے ابو عُبیدہ کے تمام عشرۂ مبشرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم (۷ )

کا ذکر ہے اور ایک روایت میں ہے کہ جب ہجرت کے وقت قریش نے جناب رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تلاش میں اپنے آدمی بھیجے تو کوہ ثَبِیْر نے کہا: یا رسول اللّٰہ! اتر ئیے کیونکہ مجھے خوف ہے کہ وہ آپ کو میری پشت پر قتل کر دیں اور مجھے اللّٰہ تعالٰی عذاب دے پس حراء نے کہا: یا رسول اللّٰہ! میری طرف آئیے۔ ( ۱)
حضرت جابر (۲ ) رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ جس وقت نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خطبہ پڑھا کر تے تھے مسجد کے ستو نوں میں سے ایک درخت خرماکے خشک تنے سے پشت مبارک لگا لیا کرتے تھے۔ جب آپ کے لئے منبر بنایا گیا اور آپ اس پر رونق افروز ہوئے تو اس تنے نے جس کے پاس خطبہ پڑھاجایاکر تا تھا فریاد کی قریب تھا کہ وہ پارہ پارہ ہو جائے۔ پس نبی صَلَّی الللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم منبر سے اتر آئے (۳ ) یہاں تک کہ اس نے آرام وقرار پایا۔ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ یہ اس لئے رویا کہ جو ذکر یہ سنا کر تا تھا وہ اب اس سے جدا ہو گیا۔ (۴ ) اس ستون کو نا لہ کر نے کے سبب حنانہ بو لتے ہیں ۔ نالۂ حنانہ کی حدیث متواتر ہے اس لئے اس میں کسی طرح کے شک کی گنجائش نہیں ۔
فتح مکہ کے روز حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پہلے مسجد حرام میں داخل ہوئے اور مہاجرین وانصار آپ کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں تھے۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے پہلے حجر اسود کو بو سہ دیاپھر طواف کیا۔ اس وقت بیت اللّٰہ شریف کے گر داور اوپر تین سو ساٹھ بت تھے جو رانگ کے ساتھ پتھر وں میں نصب کیے ہوئے تھے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دست مبارک میں ایک لکڑی تھی اس سے آپ جس بت کی طرف اشارہ فرماتے اور یہ پڑھتے :
جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُؕ-اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا (۸۱) (بنی اسرائیل، ع ۹)
آیا سچ اور نکل بھاگا جھوٹ بیشک جھوٹ نکل بھاگنے والا ہے۔ (۱ )
وہ منہ کے بل گر پڑتا۔ اس طرح آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بیت اللّٰہ شریف کو بتوں سے پاک کر دیا۔
بدر کے دن جب لڑائی سخت ہو گئی تو حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سنگر یزوں کی ایک مٹھی لی اور قریش کی طرف منہ کر کے فرمایا : ’’ شَاھَتِ الْوُجُوْہ ‘‘ (ان کے چہر ے بد شکل ہو گئے) پھر ان کی طرف پھینک دی، کفار کو شکست ہو ئی۔اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی :
وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰىۚ- (انفال، ع۲)
اور نہیں پھینکا تو نے جس وقت کہ پھینکا تو نے لیکن اللّٰہ تعالٰی نے پھینکا۔ (۳ )
اسی طرح حنین کے دن جب حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ صرف چند صحابہ رہ گئے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے خچر سے اتر کر ایک مشت خاک لی اور شَاھَتِ الْوُجُوْہ کہہ کر کفار کی طرف پھینک دی۔ کوئی کا فر (۳ ) ایسا نہ تھا جس کی آنکھوں میں وہ مٹی نہ پڑی ہو۔پس وہ شکست کھا کر بھاگ گئے۔ ( ۴)

________________________________
1 – بیت المقدس کا بڑا پتھر۔
2 – ترمذی شریف، مطبوعہ مطبع احمد ی، جلد ثانی، ص ۲۲۳۔
3 – سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب ماجاء فی اٰیات اثبات نبوۃ النبی۔۔۔ الخ، الحدیث:۳۶۴۶،ج۵،ص ۳۵۹۔علمیہ
4 – اس حدیث کو بزار و طبرانی و ابو نعیم و بیہقی نے روایت کیاہے۔ (خصائص کبریٰ۔ مواہب لدنیہ)۱۲منہ

________________________________
1 – ابن عسا کر کی روایت میں حدیث انس میں حضرت عثمان غنی کے بعد یوں آیا ہے: ثم صیرھنّ فی ایدینا رجلاً رجلاً فما سبحت حصاۃ منھنّ (خصائص کبریٰ، جزء ثانی، ص ۷۵)پھر حضور نے ان سنگریزوں کو ہم میں سے ایک ایک کے ہاتھ میں رکھامگر ان میں سے کسی سنگریزے نے تسبیح نہ پڑھی۔ ۱۲منہ
2 – اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جوحضرت ابوذر کو باوجودیکہ وہ مجلس میں اوروں کی نسبت آپ سے زیادہ قریب تھے سنگریز ے نہ دیئے بلکہ ان کو چھوڑ کر حضرت ابو بکر و عمرو عثمان کو دیئے اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت ابوذر خلفاء میں سے نہ تھے۔ حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ وَجَہَہُ بظاہر اس موقع پر حاضر نہ تھے۔۱۲منہ
3 – المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی،المقصد الرابع۔۔۔الخ،تسبیح الطعام۔۔۔الخ،ج۶،ص ۴۹۵۔۴۹۷والخصائص الکبریٰ،ذکر معجزاتہ فی انواع الجمادات،باب تسبیح الحصی و الطعام، ج۲،ص۱۲۴ ملخصًا۔علمیہ

________________________________
1 – دیکھو شفائے قاضی عیاض۔۱۲منہ
2 – الشفاء،الباب الرابع۔۔۔الخ،فصل ومثل ھذا فی سائر الجمادات،الجزء۱،ص۳۰۷۔علمیہ
3 – صحیح بخاری، باب علامات النبوۃ فی الاسلام۔
4 – صحیح البخاری،کتاب المناقب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام، الحدیث:۳۵۷۹، ج۲،ص۴۹۵ ۔علمیہ
5 – اس حدیث کو بیہقی نے دلائل میں بالطّوالت روایت کیاہے اور ابن ماجہ نے بالاختصار نقل کیا ہے۔ (مواہب لدنیہ) حافظ ابو نعیم نے بھی دلائل میں اسے روایت کیاہے۔۱۲منہ
6 – ان کے نام مبارک یہ ہیں : فضل، عبداللّٰہ، عبیداللّٰہ، قاسم، معبد، عبدالرحمن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم یہ سب ام الفضل کے بطن سے تھے۔۱۲منہ

________________________________
1 – المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی،المقصد الرابع۔۔۔الخ،تسبیح الطعام۔۔۔الخ،ج۶، ص۵۰۴-۵۰۵۔علمیہ
2 – اس حدیث کو اما م بخاری وامام احمد و ترمذی وابوحاتم نے روایت کیاہے۔ ( مواہب لدنیہ )۱۲منہ
3 – المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی،المقصد الرابع۔۔۔الخ،تسبیح الطعام۔۔۔الخ،ج۶، ص۵۰۶۔علمیہ
4 – یہ حدیث نسائی وترمذی ودارقطنی میں ہے۔ (مواہب لدنیہ)۱۲منہ
5 – المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی،المقصد الرابع۔۔۔الخ،تسبیح الطعام۔۔۔الخ،ج۶، ص۵۰۹۔علمیہ
6 – یعنی جو تجھ پر ہیں ان میں سے ہر ایک نہیں ہے مگر نبی یاصدیق یا شہید۔ مطلب یہ کہ ان میں سے ہر ایک اوصاف ثلاثہ سے خارج نہیں ۔۱۲منہ
(یعنی ان میں کوئی ایک نبی ، کوئی ایک صدیق اور کوئی ایک شہید ہے ۔علمیہ)
7 – عشرۂ مبشر ہ جو دس صحابی ہیں ۔ جن کورسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جنت کی بشارت دی۔ ان کے نام مبارک یہ ہیں : حضرت ابو بکر و عمرو عثمان و علی و طلحہ و زبیر وسعد ابن ابی وقاص وعبدالرحمن بن عوف وابو عبیدہ بن جراح و سعید بن زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم۔۱۲منہ

________________________________
1 – دیکھو مواہب لدنیہ اور مدارج النبوۃ۔ (المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی،المقصد الرابع۔۔۔الخ،تسبیح الطعام۔۔۔الخ، ج۶، ص۵۰۹۔۵۱۲ملخصًاوملتقطًا۔علمیہ)
2 – اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیاہے۔(مشکوٰۃ، باب فی المعجزات)۱۲منہ
3 – مشکوٰۃ اور بخاری شریف میں یہاں یہ الفا ظ بھی ہیں : ’’حتی أخذہا فضمہا إلیہ فجعلت تئن أنین الصبی الذی یسکت ‘‘ اور اس ستون کے پاس آکر اسے اپنے سے چمٹالیا وہ سسکیاں بھر نے لگا اس بچے کی طرح جسے چپ کرایا جاتا ہے ۔ بقیہ حدیث اسی طرح ہے جو مصنف نے ذکر کی ہے۔علمیہ
4 – مشکاۃ المصابیح،کتاب الفضائل والشمائل،باب فی المعجزات،الحدیث:۵۹۰۳، ج۲،ص۳۸۸ ۔علمیہ

________________________________
1 – ترجمۂکنزالایمان: حق آیا اور باطل مٹ گیابیشک باطل کو مٹنا ہی تھا (پ۱۵،بنی اسراء یل:۸۱)۔علمیہ
2 – ترجمۂکنزالایمان:اور اے محبوب وہ خاک جو تم نے پھینکی تم نے نہ پھینکی تھی بلکہاللّٰہ نے پھینکی۔ (پ۹، الانفال:۱۷)۔علمیہ
3 – صحیح مسلم، غزوۂ حنین۔
4 – صحیح مسلم،کتاب الجھاد والسیر،باب فی غزوۃحنین،الحدیث:۱۷۷۷،ص۹۸۰۔علمیہ

Exit mobile version