تمہاری آنکھ کیوں سوجی ہوئی ہے؟

تمہاری آنکھ کیوں سوجی ہوئی ہے؟

حضرت ِسیِّدُناعُتْبَہ بن غَزْوَان رَقَاشِیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : حضرت ِسیِّدُناابو موسیٰ اَشْعَرِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے مجھ سے دریافت فرمایا : ’’تمہاری آنکھ کیوں سُوجی ہوئی ہے ؟ ‘‘میں نے عرض کی : ’’ایک مرتبہ کسی آدمی کی کنیز پرمیری نگاہ پڑی تومیں نے ایک نظراسے دیکھ لیا ۔جب مجھے خیال آیاتومیں نے اس آنکھ پر ایک طمانچہ دے ماراجس کی وجہ سے میری یہ آنکھ سوج گئی ، اوراس کی یہ حالت ہوگئی جسے آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں ۔‘‘ حضرت سیِّدُنا ابو موسیٰ اَشْعَرِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : اپنے پروردگارعَزَّوَجَلَّسے استغفار کرو ! تم نے

اپنی آنکھ پر ظلم کیاہے کیونکہ پہلی بارنظر پڑ جانا معاف ہے جبکہ دوبارہ دیکھناجائز نہیں ۔(کتاب الثقات لابن حبان ، کتاب التابعین، عتبۃ بن غزوان ، ۲/ ۴۰۷، رقم: ۳۱۱۳)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد

 

(3) تم میں سے بہتروہ ہے جودوسروں پربوجھ نہ بنے

حضرتِ سیِّدُناعلی المرتضیٰ، شیرخدا کرم اللّٰہ تعالٰی وجہہ الکریم نے ارشاد فرمایا : خَیْرُکُمْ مَنْ لَمْ یَتْرُکْ اٰخِرَتَہُ لِدُنْیاہُ وَلَا دُنْیاہُ لِاٰخِرَتِہٖ ولَمْ یَکُنْ کَلاًّ عَلَی النَّاسِیعنی : تم سب میں بہترین وہ ہے جو دنیا کو آخرت اور آخر ت کو دنیاکے لئے نہ چھوڑے اور لوگوں پر بوجھ نہ بنے ۔(الجامع الصغیر، ص۲۵۰ ، حدیث : ۴۱۱۲)
حضرتِ سیِّدُناعلامہ عبد الرء ُوف مناوی علیہ رحمۃ اللّٰہ الھادی اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : کیونکہ دنیا آخرت کی گزرگاہ اور آخرت تک پہنچنے کا آسان ذریعہ ہے ، اسی لئے حضرتِ لقمان رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے اپنے بیٹے سے کہا تھا : دنیا سے کفایت کے مطابق لو، زائد مال کو آخرت کے لئے محفوظ کر واوردنیا کو بالکل ہی نہ ٹھکراؤ کہ محتاج ہو کر لوگوں پربوجھ بن جاؤ ۔علامہ عبد الرء ُوف مناوی علیہ رحمۃ اللّٰہ الھادیمزید فرماتے ہیں : (ضرورت کے مطابق دنیا جمع کرنا) توکل کے خلاف نہیں کیونکہ توکل اسباب کو چھوڑنے کا نام نہیں بلکہ اسباب پر اعتماد نہ کرنے کا نام ہے ، آنے والی تکلیف کو ختم کرناتوکل کے خلاف نہیں بلکہ ضروری ہے جیسے گرتی دیوار کے نیچے سے
بھاگنااور لقمہ اُتارنے کے لئے پانی پینا۔(فیض القدیر ، ۳/ ۶۶۵ تحت الحدیث : ۴۱۱۲)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمّد

Exit mobile version