برکاتِ نورِ محمد ی

برکاتِ نورِ محمد ی

اللّٰہ تعالٰی نے سب سے پہلے بلاو اسطہ اپنے حبیب محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا نور پیدا کیا، پھر اسی نور کو خلق ِعالم کا واسطہ ٹھہرایا۔ (1) اور عالم ِ اَرواح ہی میں اس رُوح سراپا نور کو وَصف نبوت سے سر فراز فرمایا، چنانچہ ایک روز صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے حضورِ انور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پو چھا کہ آپ کی نبوت کب ثابت ہوئی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : وَ آدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَ الْجَسَدِ (2) یعنی میں اس وقت نبی تھا جب کہ آدم (عَلَیْہِ السَّلَام) کی روح نے جسم سے تعلق نہ پکڑا تھا۔ بعد ازاں اسی عالم میں اللّٰہ تعالٰی نے دیگر انبیاءے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی روحوں سے وہ عہد لیا جو وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ الآیہ (3) میں مذکور ہے۔ جس وقت ان پیغمبروں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی رُوحوں نے عہد ِمذکور کے مطابق حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی نبوت وامداد کا اقرار کر لیا تو نورِ محمد ی کے فیضان سے ان رُوحوں میں وہ قابلیتیں پیدا ہو گئیں کہ دنیا میں اپنے اپنے وقت میں ان کو منصب نبوت عطا ہو ااور ان سے معجزات ظہور میں آئے امام بو صیری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے خوب فرمایا ہے :
وَکُلُّ اٰ یٍ اَتَی الرُّ سُلُ الْکِرَامُ بِھَا فَاِنَّمَا اتَّصَلَتْ مِنْ نُّوْرِہٖ بِھِمٖ

فَاِنَّہٗ شَمْسُ فَضْلٍ ھُمْ کَوَاکِبُھَا یُظْھِرْنَ اَنْوَارَھَا لِلنَّاسِ فِی الظُّلَمٖ (1)

ترجمہ منظوم:

معجزے جتنے کہ لائے تھے رسولانِ کرام لڑ اُسی کے نور سے جاملتی ہے سب کی بہم
آفتابِ فضل ہے وہ سب کو اکب اس کے تھے ظلمتوں میں نور پھیلا یا جنہوں نے بیش وکم
اسی عہد کے سبب سے حضراتِ انبیاءے سابقین عَلَیْہِمُ السَّلَام اپنی اپنی امتوں کو حضور نبی آخرالزمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی آمد وبشارت اور ان کے اتباع وامد اد کی تاکید فرماتے رہے ہیں ۔اگر حضور نبی اُمی بِاَبِیْ ہُوَ وَاُمِّی (2) کی نبوت دنیا میں ظاہر نہ ہوتی تو تمام انبیاءے سابقین عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوتیں باطل ہو جاتیں اور وہ تمام بشارتیں ناتمام رہ جاتیں ۔پس دنیامیں حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تشریف آوری نے تمام انبیاءے سابقین عَلَیْہِمُ السَّلَام کی نبو توں کی تصدیق فرمادی۔
بَلْ جَآءَ بِالْحَقِّ وَ صَدَّقَ الْمُرْسَلِیْنَ (۳۷) (3)
جس طرح رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا نورِ اَز ہرمَنْبعِ اَنو ار الا نبیاء تھا اسی طرح آپ کے جسمِ اَطہر کا مادہ بھی لطیف ترین اَشیاء تھا چنانچہ حضرت کعب اَحبار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے منقول ہے (4) کہ جب اللّٰہ تعالٰی نے حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو پیدا کر نا چاہا تو جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کو حکم دیا کہ سفید مٹی لاؤ۔پس جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام بہشت کے فرشتوں کے ساتھ اتر ے اور حضرت کی قبرشریف کی جگہ سے ُمٹھی بھر خاکِ سفید چمکتی دمکتی اٹھا لا ئے پھر وہ مشتِ خاکِ سفید بہشت کے چشمۂ تسنیم کے پانی سے گو ند ھی گئی یہاں تک کہ سفید موتی کی مانندہوگئی جس کی بڑی شعاع تھی

بعد از اں فرشتے اسے لے کر عرش وکرسی کے گر داور آسمانوں اور زمین میں پھر ے یہاں تک کہ تمام فرشتوں نے آپ (روحِ انور ومادۂ اطہر) کو آدم عَلَیْہِ السَّلَام کی پیدائش سے پہلے پہچان لیا۔
جب اللّٰہ تعالٰی نے حضرت آدم عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پیدا کیا تو اپنے حبیب پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نور کو ان کی پشت ِمبارک میں بطورِ وَدِ یْعَت (1) رکھا۔اس نور کے اَنوار اُن کی پیشانی میں یوں نمایاں تھے جیسے آفتاب آسمان میں اور چانداندھیری رات میں اور ان سے عہد لیاگیا کہ یہ نورِ انور پاک پشتوں سے پاک رحموں میں منتقل ہوا کرے۔ اسی واسطے جب وہ حضرت حواء عَلَیْہَاالسَّلَام سے مُقَارَبت کا ارادہ کر تے تو انہیں پاک وپاکیزہ ہونے کی تاکید فرماتے یہاں تک کہ وہ نورحضرتِ حواء عَلَیْہَاالسَّلَام کے رِحم پاک میں منتقل ہوگیا اس وقت وہ انوار جو حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَامکی پیشانی میں تھے حضرت حواء عَلَیْہَاالسَّلَام کی پیشانی میں نُمودار ہوئے۔ایام ِحمل میں حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام نے بپاسِ اَدَب وتعظیم حضرت حواء عَلَیْہَاالسَّلَامسے مُقارَبَت ترک کر دی یہاں تک کہ حضرت شیث عَلَیْہِ السَّلَام پیدا ہوئے تو وہ نور اِن کی پشت میں منتقل ہو گیا۔یہ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا معجزہ تھا کہ حضرت شیث عَلَیْہِ السَّلَام اکیلے پیدا ہوئے۔ آپ کے بعد ایک بطن میں جوڑا (لڑکا لڑکی) پیدا ہوتا رہا اس طرح یہ نورِ پاک، پاک پشتوں سے پاک رحموں میں منتقل ہوتا ہوا حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد ماجد حضرت عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ تک پہنچااور ان سے بِنابَر قولِ اَصَح ایامِ تشریق میں جمعہ کی رات کو آپ کی والدہ ماجد ہ حضرت آمنہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے رِحم ِپاک میں منتقل ہوا۔
اسی نور کے پاک وصاف رکھنے کے لئے اللّٰہ تعالٰی نے حضرت کے تمام آباء واُمَّہَات کو شرک وکفر کی نجاست اور زِناکی آلود گی سے پاک رکھا ہے۔ اسی نور کے ذریعہ سے حضرت کے تمام آباء واَجداد نہایت حسین و مر جع خلائق تھے۔ اسی نور کی برکت سے حضرت آدم عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ملائک کے مسجود بنے اوراسی نور کے وسیلہ سے ان کی تو بہ قبول ہوئی، اسی کی برکت سے حضرت نوح عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی کشتی طو فان میں غرق ہونے سے بچی۔اسی نور کی برکت سے حضرت ابر اہیم عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر آتَشِ نَمر ود گلزار ہو گئی اور اسی نور کے طفیل سے حضرات انبیا ئے سابقین عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِمُ الصَّلَوَاتُ وَالتَّسْلِیْمَات پر اللّٰہ تعالٰی کی عنایات بے غایت (2) ہوئیں ۔

جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم غزوۂ تبوک سے واپس تشریف لائے تو حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اجازت سے آپ کی مدح میں چند اشعار عرض کیے۔ (1) جن میں مذکور ہے کہ کشتی ِنوح کا طوفان سے بچنا اور حضرت ابر اہیم عَلَیْہِ السَّلَام پر آتَشِ نَمر ودکا گلزار ہو جانا حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نورہی کی برکت سے تھا۔
حضرت امام الا ئمہ ابوحَنِیفہ نعمان بن ثابت تا بعی کوفی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُحضور رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مَدْح میں یوں فرماتے ہیں : (2)
اَنْتَ الَّذِیْ لَوْلَاکَ مَا خُلِقَ امْرُئٌ کَلاَّ وَلَا خُلِقَ الْوَریٰ لَوْ لَاکَا
اَنْتَ الَّذِیْ مِنْ نُّوْرِکَ لِلْبَدْرِ السَّنَا وَ الشَّمْسُ مُشْرِقَۃٌ بِنُوْرِ بَھَاکَا
اَنْتَ الَّذِیْ لَمَّا تَوَسَّلَ اٰدَمُ مِنْ زَلَّۃٍ بِکَ فَازَ وَ ہُوَ اَبَاکَا
وَبِکَ الْخَلِیْلُ دَعَا فَعَادَتْ نَارُہٗ بَرْدًا وَّ قَدْ خَمِدَتْ بِنُوْرِ سَنَاکَا
وَ دَعَاکَ اَیُّوْبُ لِضُرٍّ مَّسَّہٗ فَاُزِیْلَ عَنْہُ الضُّرُّ حِیْنَ دَعَاکَا
وَ بِکَ الْمَسِیْحُ اَتٰی بَشِیْرًا مُّخْبِرًا بِصِفَاتِ حُسْنِکَ مَادِحًا لِعُـلَاکَا
کَذٰلِکَ مُوْسٰی لَمْ یَزَلْ مُتَوَسِّلًا بِکَ فِی الْقِیٰمَۃِ مُحْتَمًا بِحِمَاکَا
وَالْانبیآء وَ کُلُّ خَلْقٍ فِی الْوَرٰی وَالرُّسُلُ وَالْاَمْلَاکُ تَحْتَ لِوَاکَا (3)
آپ کی وہ مقدس ذات ہے کہ اگر آپ نہ ہوتے تو ہر گز کوئی آدمی پیدا نہ ہوتا اور نہ کوئی مخلوق پیدا ہوتی اگر آپ نہ ہوتے۔آپ وہ ہیں کہ آپ کے نور سے چاند کورو شنی ہے اور سورج آپ ہی کے نورِ زَیبا سے چمک رہا ہے۔ آپ وہ
ہیں کہ جب آدم نے لغزش کے سبب سے آپ کا وسیلہ پکڑ اتو وہ کامیاب ہوگئے حالانکہ وہ آپ کے باپ ہیں ۔ آپ ہی کے وسیلہ سے خلیل نے دعا ما نگی ، تو آپ کے روشن نور سے آگ ان پر ٹھنڈی ہو گئی اور بجھ گئی اور ایو ب نے اپنی مصیبت میں آپ ہی کو پکارا تو اس پکا ر نے پر ان کی مصیبت دور ہو گئی اور مسیح آپ ہی کی بشارت اور آپ ہی کی صفات حسنہ کی خبر دیتے اور آپ کی مدح کر تے ہوئے آئے۔ اسی طرح موسیٰ آپ کا وسیلہ پکڑنے والے اورقیامت میں آپ کے سبزہ زار میں پناہ لینے والے رہے اور انبیاء اور مخلوقات میں سے ہر مخلوق اورپیغمبر اور فرشتے آپ کے جھنڈے تلے ہوں گے۔
مولیٰنا جامی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ یوں فرماتے ہیں :
و صلی اللّٰہ علیٰ نور کز و شد نورہا پیدا
زمین از حبِ اُو ساکن فلک در عشقِ اُو شیدا
محمد احمد و محمود وے را خالِقَش بِستود
کزو شد بود ہر موجود زو شد دیدہا بینا
اگر نامِ محمد را نیاوردے شفیع آدم
نہ آدم یافتے توبہ نہ نوح از غرق نجّینا
نہ ایوب از بلا راحت نہ یوسف حشمت و جاہت
نہ عیسیٰ آں مسیحا دم نہ موسیٰ آں یدِبیضا

 

________________________________
1 – مصنف عبدالرزاق ( مُتَوَ فّٰی ۲۱۱ھ ) بروایت حضرت جابر بن عبداللّٰہ انصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ۔(الجزء المفقود من الجزء الاول من المصنف لعبد الرزاق،کتاب الایمان ، باب فی تخلیق نور محمد صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم،الحد یث:۱۸،ص۶۳ علمیہ)
2 – ترمذی شریف ۔(سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب ما جاء فی فضل النبیصلی اللّٰہ علیہ وسلم، الحدیث:۳۶۲۹، ج۵، ص۳۵۱ علمیہ)
3 – اس آیت کا ترجمہ یوں ہے اور جب لیا اللّٰہنے اقرار پیغمبروں کا کہ البتہ جو کچھ میں نے تم کو دیا کتاب و حکمت سے پھر آوے تمہارے پاس رسول سچا کرنے والا اس چیز کوکہ تمہارے ساتھ ہے البتہ تم ایمان لاؤ گے اس پراور البتہ مدد دوگے اس کو، کہا خدا نے کیا اقرار کیا تم نے اور لیا اس پر عہد میرا، کہا انہوں نے اقرار کیا ہم نے، فرمایا خدا نے تم گواہ رہو اور میں تمہارے ساتھ گواہوں سے ہوں ۔ انتہیٰ( آل عمران، رکوع ۹)۔۱۲منہ (ترجمۂ کنزالایمان: اور یاد کرو جب اللّٰہنے پیغمبروں سے ان کا عہد لیاجو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا فرمایا کیوں تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا سب نے عرض کی ہم نے اقرار کیا فرمایاتو ایک دوسرے پر گواہ ہوجاؤ اور میں آپ تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں ۔ پ۳،اٰل عمرٰن:۸۱ علمیہ)

 

________________________________
1 – قصیدۃ البردۃ مع شرح عصیدۃ الشہدۃ،شعر۵۲،۵۳،ص۹۸ علمیہ۔
2 – میرے ماں باپ آپ پر قربان۔
3 – بلکہ لایا ہے حق کو اور سچا کیا ہے پیغمبروں کو (صافات ،رکوع۲)۱۲منہ۔ (ترجمۂ کنزالایمان:بلکہ وہ تو حق لائے ہیں اور انہوں نے رسولوں کی تصدیق فرمائی۔( پ۲۳،الصٰفّٰت:۳۷)علمیہ)
4 – وفاء الوفاء فی فضائل المصطفیٰ لابن الجوزی۔(الوفا باحوال المصطفٰی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لابن جوزی(مترجم)دوسراباب،سرور عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے وجود عنصری کا بیان، ص۴۹)

________________________________
1 – بطورِ امانت۔
2 – بے انتہا۔

Exit mobile version