برقی روشنی
الحمد اللہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علیٰ رسولہٖ وحبیبہٖ سیدنا محمد و آلہٖ وأصحابہٖ أجمعین
ہم جن چیزوں کو روزمرہ دیکھ رہے ہیں ، اگر غور اور تدبیر کی نگاہ سے دیکھیں تو بہت سارے لایخل عقدے حل ہو سکتے ہیں ۔دیکھئے ہم آج کل مشاہدہ کر رہے ہیں کہ یورپ کے عقلمند وںنے برقی روشنی ایک عجیب چیز ایجادی کی ہے جس کے کرشمے ایک عالم کو حیران کر رہے ہیں ۔ کیا یہ بات عالم کو محو حیرت کرنے کے لئے کافی نہیں کہ صدہا اور ہزارہا چراغ ایک ادنیٰ حرکت سے روشن ہو جا تے ہیں !اور پھر ایسی صنعت سے کہ کوئی سفید ہے کوئی سبز اور کہیں سرخ ہے توکہیں زرد بیسوں رنگ کے چراغ آن واحد میں جلوہ گر ہو جا تے ہیں ،او رہر ایک چراغ دوسرے سے کامل ممتاز نظر آرہا ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ کہیں پھول کی شکل ہے تو کہیں پتے وغیرہ کی ،کہیں چاند کی ، کہیں ستا روں کی !ایسی صنعت میں جدت طرا زیوں کو دیکھتے ہوئے کیا بعید ہے کہ ائندہ حیوانات اور انسانوں کی شکلیں بھی بنائی جا ئیں اور و ہ سب ممتاز حیثیت میںنور کے پتلے بن کر اپنے دیکھنے والوں کو محوتماشا بنا دیں ۔
اس برقی روشنی کا ایک خاص منبع ہو تا ہے جس پر اس عالم نورانی کا دار ومدار ہے ، وہاں ایک ایسا بٹن بنا ہوتا ہے جس کوایک ذرہ سی حرکت دینے سے تیرہ و تار مقامات بقعہء نور بن جا تے ہیں اور ایسا دلچسپ سماں نظر آتا ہے کہ دیکھنے والے اس کی دلچسپی میں محو حیرت ہوجا تے ہیں ۔
اگرپہلے پہل کسی دیہاتی شخص کے روبرو جس نے کبھی اپنی عمر میں برقی نہیں دیکھی ہو یہ سماں دکھلا یا جائے تو جس قدر اس کوحیرانی ہوگی اس کا اندازہ نہیں ہوسکتا !پھر اگر یہی کام ہر روز اس کے روبرو کیا جائے اور وہ ان روشنیوں کا عادی ہو جائے تو اس کی ابتدائی کیفیت باقی نہیں رہے گی ،اوراب اگراس سے پوچھا جائے کہ بھائی یہ عمدہ عمدہ صنعتیں جوتم ہر روز دیکھ رہے ہو ان کی کیا حقیقت ہے ؟ اوران کا بنانے والا کس درجہ کا صنّاع ہے ؟تو بے ساختہ اس کے منہ سے یہی نکلے گا کہ ہماری سمجھ میں توکوئی بات نہیں آتی اور نہ ہمیں اس کے سمجھنے کی کوئی ضرورت ہے ۔یہ توایک عامی اور سادہ لوح شخص کی حالت تھی ، اگرکوئی عقلمند شخص ہوتووہ اسی فکر میں لگا رہے گا کہ آخر ا س کی لِم کیا ہے ؟ اور فعتاً اس قدر چراغ کیونکر روشن ہو جا تے ہیں ؟بالآخر ایسے لوگوں کوجدوجہد کا شمرہ مل ہی جا تا ہے اور وہ اپنے اپنے حوصلے کے موافق کچھ نہ کچھ سمجھ ہی لیتے ہیں ۔
اب عقلمند وں کو اسی پر قیاس کرنا چاہئے کہ عالَم پہلے تیرہ و تار تھا بلکہ یو ں کہئے کہ عالم کچھ بھی نہ تھا صرف ہر صرف عدم کی تاریکی ہی تاریکی تھی ، پھرحق تعالیٰ نے ایک ادنیٰ حرکت ’’کن ‘‘ سے تمام عالم کو روشنیِ وجود سے منور کردیا ،گویا اس تاریکی میں قسم قسم کے چراغ روشن ہوگئے ،کیونکہ موجود بھی ایک چراغ ہے جس سے نور وجود ظاہر ہو رہا ہے ،اور چراغ جس طرح اس تاریکی میں ممتاز ہوکر نظر آتا ہے اسی طرح ہر موجود ممتاز نظر آرہا ہے ۔
ادنیٰ تامل سے یہ بات معلوم ہوسکتی ہے کہ چراغ میں بھی نور ِ وجود نہ ہوتو بالکل نظرنہ آئے گا ،اس لئے کہ وہی چراغ جب تک عدم میں تھا نمایاں نہ تھا ،صرف وجود کی وجہ سے نمایاں ہو گیا ،اور قبل وجود اس کا کہیں پتہ نہ تھا ،البتہ روشن کرنے والے کے علم میں اس قدر ضرور تھا کہ اس مقام میں فلاں قسم کا چراغ ہو اور اس مقام میںفلاں قسم کا ، اسی طرح حق تعالیٰ کے علم میں ہرچیز کا وجودتھا ۔اس وجود علمی کے سوا ان چراغوں میں یہ بات بھی ضروری تھی کہ منور کرنے والے نے ہر ایک چراغ کو ایک ایک مقام میں معین کر دیا تھا کہ فلاں مقام میں فلاں قسم کا چراغ ہو !اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر ایک چراغ کے لئے ایک ذات تھی جس کا وجودبمجرد روشنی کے خارج میں آگیا ۔پس اُس ذات معدومہ کواِس چراغ کی عین ثابتہ کہہ سکتے ہیں ،کیونکہ ہنوز اس کا وجود نہیں ہوا بلکہ صرف اس کو ایک قسم کا ثبوت ہے جووجود کے پہلے کا درجہ ہے ۔ اسی طرح موجودات عالم کے اعیان ثابتہ سے پہلے تھیں جو نور وجود کے ساتھ ہی باہم ممتاز ہوکر وجود میں آگئیں ۔
یہ امر مسلم ہے کہ آدمی کسی چیز کو موجود نہیں کر سکتا یعنی کسی معدوم کووجود میںلانے پرہرگز قادر نہیں ہے ،صرف انتا ہی کر سکتا ہے کہ موجود ہ اشیاء میں ایک خاص قسم کی ترکیب دے کر چیز بنا دیتاہے ۔مثلاً مٹی ،پتھر، لکڑی وغیرہ کو ایک خاص قسم کی ترکیب دے کر گھر بنا لیا ،اگر پیشترسے گھر کے اجزاء
موجود نہ ہوتے تو انسان ہرگز گھر نہ بنا سکتا ۔ اسی طرح برق جو ایک موجود چیز ہے اس میں تصرف کرکے روشن کر دیتا ہے ۔مطلب یہ ہے کہ وہ نہ تو برق کی ذات کو وجود میںلا سکتاہے اور نہ روشنی کو، بلکہ صرف اپنی تدبیر سے موجود برقی قوت کو یا یوں کہئے کہ مادۂ برقی کو جمع کر دیتا ہے اورایک ایسی خاص قسم کی حرکت دیتا ہے جس سے اس میں اشتعال پیدا ہو جا تا ہے اور یہ مادۂ برق یا اصلی قوت جس میں انسان نے تصرف کرکے مشتعل کر دیا ہے حق تعالیٰ کا پیداکیا ہوا ہے ،اس کی ایجاد انسان کی قدرت سے بالکل خارج ہے ۔
اسی طرح انسان کا ہر ایک عمل صرف تصرف او راشتعال ہے ۔ اشیائے موجودہ میں آدمی جن اعیان ثابتہ کو موجود کر تا ہے وہ موجودات کی ایک خاص قسم کی حالت ہوتی ہے ،مثلاًمکان کی عین ثابتہ لکڑی ، پتھر وغیرہ کی ایک خاص ہیٔت تھی جس کا نقشہ بنا نے والے اپنے ذہن میں ٹھہر ا یا تھا ڈپھر ان موجودہ اشیاء میں تصرف کرکے اور ایک قسم کی ترکیب دے کر مکان کی عین ثابتہ کو موجود کردیا ،اگرچہ مکان کایہ وجودِخارجی پہلے نہ تھا مگر وہ اشیاء جن کویہ ہیٔت عارض ہوئی ہے پہلے سے موجود تھیں۔بخلاف خدا وند تعالیٰ کے کہ اُن اعیان ثابتہ کو وجود دیتا ہے جن کا کوئی مادہ خارج میں ہی ہوتا ،ایسا وجود دنیا خاص حق تعالیٰ ہی کاکام ہے ۔اگر خدا وند تعالیٰ کی تخلیق کے لئے بھی پیشتر مادہ کی ضرورت ہوتووہ بھی مثل انسان کے محتاج مادہ ہو جا ئے گا کہ جب تک مادہ نہ ہو کچھ پیدا ہی نہ کر سکے ! حالانکہ خدا ے تعالیٰ کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ کسی چیز کا محتاج ہو ۔
اور اگر مادۂ علم پہلے ہی سے موجود ہواور کسی کا بنایا ہوا نہ ہوتو اس کو ہی خدا کہنا پڑے گا ،کیونکہ خدا کے معنی ہی یہ ہیں کہ خود بخود جود ہو گیا ہو کسی نے اس کو پیدا نہ کیا ہو ، جیسا کہ ’’خدا‘‘لفظی ترکیب بھی یہی بتا رہی ہے کہ خدا کی اصل ’’خودآ ‘‘تھی ۔اب اگر یہ مان لیا جائے کہ مادہ قدیم ہے اور وہ ہی خدا ہے تو پھر ذات باری تعالیٰ کے ماننے کی ضرورت ہی نہ رہے گی کیونکہ عالم کے لئے ایک خدا کا فی ہے ۔
چنانچہ مادہ پرست دہریے یہی کہتے ہیں کہ تخلیق عالم کے لئے مادہ کافی ہے خدا کی کوئی ضرورت نہیں ۔ یہ خیال ان کو اس لئے پیدا ہوا کہ ہم جس چیزکو بنا تے ہیں اس کاکچھ نہ کچھ مادہ ضرور ہو تا ہے ،ایک ہانڈی بنا ئی جا تی ہے تواس کے لئے پیشتر سے مٹی کی صرورت ہوتی ہے ، اور ایک صندوق بنا یا جا ئے توپہلے لکڑی کی ضرورت ہو تی ہے،غرض ہماری مصنوعات میں کوئی چیز ایسی نہیں مل سکتی جس کا کچھ نہ کچھ مادہ موجود ہو ،جب ہمیں کچھ بنانے کی ضرورت ہوتی ہے توپہلے مادہ کو فراہم کر نے کا خیال ہو تا ہے ،اس سے انھو ںنے یہ خیال گھڑا لیا کہ جو چیز پیدا ہوگی اس کا کچھ نہ کچھ مادہ ضرور ہوگا !مگر افسوس انھیں یہ نہ سوجھا کہ آخر مادہ بھی ایک چیزہے اس کاکیا مادہ ہوگا ؟!اگر اس خیال کو وہ مستحکم کرتے اور خوب غور کر تے تو ضرور ان کو ماننا پڑتا کہ ہر چیز کو مادہ کی ضرورت نہیں ہے ، صرف مادیات محتاج مادہ ہیں ۔
بہر حال اپنی مصنوعات پرقیاس کرکے یہ حکم لگادینا کہ کوئی چیز ایسی نہیں جو بغیرہ مادہ کے بنی ہے اس لئے عالم کا ایک مادۂ اولیٰ ہونا ضروری ہے ، ایک بے اصل حکم اور قیاس مع الفارق ہے ۔اگر آپ ان سے یہ پوچھیں کہ وہ مادہ کیا چیز ہے ؟اور اس کی حقیقت کیا ہے ؟ تونہ اس کی حقیقت بتلا سکتے ہیں نہ کوئی چیز دکھلا سکتے ہیں ،بجز اس کے کہ ایک فرض کردہ خیالی چیز کی تعریف کردیں ،اور کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ چنانچہ کوئی کہتاہے کہ وہ ایک جوہر بسیط ہے جو اپنے ظہور میں صورت کا محتاج ہے ،او ر کسی کا قول ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے سخت اجزاء ہیں جو ٹوٹتے پھوٹتے نہیں ۔
اب یہاں غور کیجئے کہ ابتدائی تقریر ایسی چیز سے شروع ہو ئی تھی جو محسوس ہے ، مثلاً ہانڈی کے لئے مٹی اور صندوق کے لئے لکڑی ،اور انتہا ء اس چیزپرہوئی جو کسی طرح محسوس ہی نہیں ہوسکتی اور خود ماد یین اس کے محسوس کر وانے سے عاجز ہیں،اورپھر باہم ان میں ا س کے متلعق ایسی نزاع واقع ہو ئی ہے کہ کوئی فرقہ اپنے دعویٰ کو ثابت نہ کرسکا جس سے دوسرا فرقہ ساکت ہو جائے ۔ با وجود ا س کے ہمارے بعض احباب ان کے اقوال کی ایسی تصدیق کر تے ہیں کہ گویا ایمان لا تے ہیں !اور ان خیالی باتوں کے مقابلہ میں خدا و رسول کے فرمان واجب الاذعان کو کہ حق تعالیٰ جس چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے ا س کو ’’کن ‘‘ سے مخاطب کرتا ہے اور وہ چیز فوراً بلا تاخیر وجود میں آجا تی ہے ، ہرگز پرواہ نہیں کرتے !اور ان مادییٖن کی تقلید سے ایک ایسی چیز کے قائل ہو رہے ہیں جس کو نہ دیکھا ہے اورنہ دکھلا سکتے ہیں ۔ جب مسلمان کہلا تے ہیں تو تم ازکم اتنا تو ہوتا کہ مادیین کی ان باتوں کو جن کا ثبوت خودان کے نزدیک
نہیں ہے نہ مانتے اور خدا کی بات کوجس کے صادق القول ہونے پر بوجہ مسلمان کہلانے کے ایمان رکھنا چاہئے مان لیتے !مگر افسوس ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ان کے نزدیک اتنی بھی وقعت نہیں ہے کہ اس کی بات کو ان بے اصل مخدوش اور خیالی باتوں پرترجیح دیں !!
نییجریہ یعنی فرقہ دہر یہ پر مسئلہ کادہ کا اس قدر اثر ہو ا کہ اس مسئلہ کی ابتداء جہاں سے ہوئی تھی اس کو وہ سرے بھول ہی گئے ،اس لئے کہ ابتداء تویوں ہوئی تھی کہ اگرہم کسی چیز کو بنانا چاہتے ہیں توپہلے مادہ کی ہمیں ضرورت پڑتی ہے ،جب مادہ مل جا تا ہے تو اپنی فکر و تدبیر سے اس میں تصرف کرکے ایک نئی چیز بنا لیتے ہیں جو پہلے نہ تھی ۔ یہاں سے یہ بات اچھی طرح واضع ہوجا تی ہے کہ مادہ نہ اپنی ذات سے کوئی کام کر سکتا ہے نہ اس کو عقل و شعور ہے ،با وجود اس کے انھوں نے یہ مان لیا کہ بنا نے والے کی کوئی ضرورت نہیں صرف مادہ ہی سب کچھ کر لیتا ہے ،مادہ جمع ہوکر زمین بن گئی ،پانی بن گیا ، ہو ا ہوگئی ، آگ بن گئی ، جما دات حیوانات اور تمام کائنات خودبخود بن گئی،اورہزاروں سینکڑوں چیزیں بنتی جا تی ہیں !!اگر اہل اسلام قرآن و حدیث کی کوئی بات ان سے کہتے ہیں جو ان کی معمولی عقلوں میں نہیں آتی تو فوراً کہہ اٹھتے ہیں کہ ہم جب تک مشاہدہ کر لیں گے ایسی باتوں پر ایمان نہ لائیںگے۔ اب ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ اس عالم کی روز مرہ کی وہ چیزیں جن کوہم استعمال کر تے ہیں اور اپنی قوت صنعت وحرفت سے نئی نئی وضع کی تیار کرتے ہیں آیا خوبخود بن جا تی ہیں ؟ او رکوئی مصنوع ایسا بھی ممکن ہے جو بغیر کسی کے بنائے بن جا تا ہو ؟ ایسا ہر گز ہو نہیں سکتا ۔
جب ادنیٰ ادنی ٰ چیزوں کا یہ حال ہے تو کائنات کی بڑی مخلوقات کیونکر خود بخود بن گئی ہوں گی ؟ !مشاہدہ کے خلاف ان کی عقلوں نے کس طرح تسلیم کرلیا کہ تمام عالم خودبخود بغیر کسی خالق علیم و حکیم کے بن گیا ہے ؟! اس کی مثال بعینم ایسی ہے جیسے دیہاتی بیوقوف نے برقی روشنی کے ہزار چراغوں کو خود بخود روشن ہو تے دیکھا اور روشن کرنے والا اس کو نظر نہ آیا تواس کے سادہ ذہن نے یہ نتیجہ نکالا کہ جب رات ہوتی ہے تو یہ سب چراغ خودبخود روشن ہو جا تے ہیں !اب اس سے ہزار کہئے کہ بھائی یہ برق روشنی ہے تم برق کی قوتوں او کرشموں سے ناواقف ہو یہ سب چراغ برقی قوت سے روشن ہو تے ہیں اور ایک شخص ان کو روشن کرنے والا ہوتا ہے جوایک خفیف سی حرکت سے سب کو آن واحد میں روشن کر دیتا ہے ،مگر اس سادہ لوح کے دہن میں یہ بات نہ آئے گی اور وہ ہرگز با ور نہ کرے گا بلکہ یہی کہے جا گا کہ : اگریہ بجلی ہے تو اس کی گرج کہاں ہے ،ہم نے توکبھی نہیں دیکھا کہ بجلی چمکے او راس کی گرج نہ ہو !اگر دوری کی وجہ سے اس کی آواز نہ سنی جا ئے تویہ بات اورہے مگر جہاں چمکتی ہے وہاں تو آواز ضرور ہو تی ہے ،پھر اگر یہ بجلی ہے تواس کی روشنی پورے تار میں کیوں نہیں ہوتی اوروہ تار گرم کیوں نہیں ہوتا ؟ اور چراغ کی طرح وہ بھی روشن کیوں نہیں نظر آتا ؟ اورجن لکڑیوں سے وہ متعلق ہے وہ کیوں نہیں جل جا تیں ؟۔ کیا اس احمق کی یہ دلائل عقلمند وں کے نزدیک قابل القات ہوسکتی ہیں !! ہر گز نہیں عقل والے یہی سمجھیں گے کہ وہ بے وقوف معذور ہے ، اس کی کمزوری عقل اس قابل نہیں کہ مسئلہ برق سمجھ سکے ۔مگر عقلاء فوراً مان جائیں گے اور بحسب مدارج عقل برق کی طاقتوں اور کرشموں کے قائل ہو جائیں گے،اور کم ازکم اتنا تو ضرور کہیں گے کہ :گو ہمیں اس کی حقیقت معلوم نہ ہو اور کس قسم کی حرکت سے وہ روشنی ہو تی ہے اس حرکت میں او رروشنی میں کیا مناسبت ہے گوہم نہ سمجھ سکتے ہوں ،مگرہم یہ ضرور کہیں گے کہ کوئی شخص ضرور ہے جو ایک خاص قسم کی صنعت اورحرکت سے ان تمام چراغوں کو روشن کیا کر تا ہے ۔یعنی مُحرِّک اور منور کے وجود کے وہ ضرور قائل ہو جائیں گے ۔
اہل ایمان بھی سمجھتے ہیں کہ جس طرح اس جنگلی کی سمجھ قاصر ہے اور سمجھ نہیں سکتا کہ صرف ایک حرکت سے ہزاروں چراغ کیونکر روشن ہوجا تے ہیں ؟اسی طرح ہماری سمجھ اس بات سے قاصر ہے کہ خدا وند تعالیٰ ایک لفظ ’’کن‘‘ سے تمام مخلوقات کو کیونکر پیدا کر دیتا ہے ،اور جس طرح عقلاء تسلیم کرلیتے ہیں کہ ایک ادنیٰ حرکت سے ہزاروں چراغو ںکا آن واحد میں روشن ہو جا نا کوئی خلاف عقل با ت نہیں ،اسی طرح وہ عقلاء جن کودین کی عقل ہے اورہمیشہ قرآن و حدیث کے مضامین میں غور وفکر کر تے رہتے ہیں ان کو صاف طورپر معلوم ہوجا تا ہے کہ بیشک جس چیز کو حق تعالیٰ پیدا کر نا چاہتا ہے ایک امر ’’کن‘‘سے پیدا کر دیتا ہے ،یعنی اس کو ارشاد ہو تا ہے کہ ’’ہوجا ‘‘ وہ فوراً ہو جا تی ہے ۔ان کواس بات کا عقل سے بھی یقین حاصل ہو تا ہے کہ جس طرح خدا وند تعالیٰ کاوجود کسی کا محتاج نہیں خودبخود اس کا وجود ہے ۔ اسی طرح وہ اپنے افعال میں بھی کسی کامحتاج نہیں ہے ،اس کو نہ مادہ کی ضرورت ہے نہ آلات
واوزار سے مدلینے کی ۔
اگر ایسا نہ ہوتو پھر بندہ اور خالق میں فرق ہی کیا ہوا ؟!بندہ بھی خیر مادہ کے کوئی چیز بنانہیں سکتا اور خالق بھی بغیر مادہ کے نہ بنا سکا !خالق کے افعال کو بندوں کے افعال پر قیاس کرنا خالق کی بے قدری کرنی ہے ، وما قدر وا اللہ حق قدرہ ۔
اگربرقی روشنی میں کامل طورپر فکر کی جائے توبہت سے دینی مسائل کا کامل ثبوت مل سکتا ہے ،بشرطیکہ ایمانی نظر سے دیکھیں ۔
اگر حق تعالیٰ توفیق دے تو کسی مقام میں اس سے متعلق اور بھی کچھ لکھا جائے گا ۔حق تعالیٰ ہمیں ایمانی نظر عطاء فرمائے تاکہ ہر چیز سے فائدہ ٔاخر وی اور دنیوی حاصل کرسکیں ۔
نسأ ل اللّٰہ التوفیق