’’ایمان ‘‘ و ’’ احسان ‘‘ میں ’’اسلام ‘‘کی ضرورت

’’ایمان ‘‘ و ’’ احسان ‘‘ میں ’’اسلام ‘‘کی ضرورت

:
اب اس کے بعد کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ ہم درجہء احسان میں ہیں اس لئے عبادت ظاہری کی ہمیں ضرورت نہیں ۔ کیونکہ جب نص قطعی سے ثابت ہے کہ جس پر عبادت ظاہر ی آسان نہ ہوتو یہ سمجھا جائے گا کہ خدا ے تعالیٰ اس کو گمراہ کرنا چاہتا ہے ، اور جس کو خدائے تعالیٰ گمراہ کرنا چاہے ممکن نہیں کہ اس کو ہدایت او رتقرب الٰہی حاصل ہوسکے ۔ الحاصل جو عبادت مفروضہ سے محروم ہے وہ درجہء احسان سے بالکلیہ محروم ہے۔ جبرئیل علیہ السلام جو تعلیم امت کے لئے بارگاہ الٰہی سے مامور ہوکر آئے تھے ان کی پہلی تعلیم اسلام سے متلعق تھی ، جس کے معنی گردن نہادن اور فرماں برداری کے ہیں ،اس کے بعد ایمان کی تعلیم مقصود تھی، اس کے بعد احسا ن کی تعلیم ۔
اس سے ظاہر ہے کہ دین میں ابتدائی درجہ اسلام ہے اور انتہائی درجہ احسان کا ہے ۔ ابتدائی درجہ کا وجوددوسرے دونوں درجوں میں ضروریات سے ہے ،کیونکہ ایمان کے درجہ میں اگر آدمی بطور خود کسی بات پر ایمان لائے تو اس کو بجائے ایمان دار کے بے ایمان کہنا چاہئے ۔ایمان کے درجہ میں اسی قسم کا ایمان ہو نا چاہئے جو قرآن وحدیث سے ثابت ہے یعنی اس ایمان کے وقت آیات و احادیث کی فرماں برداری کی ضرورت ہے ۔مثلاً خداے تعالیٰ کی ان صفات پر ایمان لائے جو شریعت سے ثابت ہیں ، اگر اس میں تصرف کرے اور یہ کہے کہ فلاں صفت میں یہ قباحت لازم آتی ہے اس لئے اس باب میں فرماں برداری نہیں کرسکتا ،تو ایسا ایمان جس کو اسلام سے تعلق نہیں وہ ایمان نہیں ہوسکتا ۔ اسی طرح احسان کے درجہ میںجو ارشادہے واعبدربک اگر اسلام نہ ہو یعنی یہ کہے کہ فلاں عبادت جس کاحکم خدا و ررسول نے دیا ہے میں نہ کروں گا اور اس میں مجھے فرمانبرداری کی ضرورت نہیں تواس کو درجہ احسان سے تعلق نہیں ۔ غرضکہ اسلام یعنی فرمانبرداری خداورسول دین کے تمامی مدارج میں ضروریا ت سے ہے ،اسی وجہ سے ارشاد باری تعالیٰ ہو رہا ہے فمن یرد اللہ ان یہدیہ یشرح صدرہ للا سلام ۔

Exit mobile version