انسان سے متعلق ربوبیت :

انسان سے متعلق ربوبیت :

یہ تو ہر شخص جانتا ہے کہ خداے تعالیٰ ’’ربّ العالَمین‘‘ہے یعنی تمام عالَموں کا پرورش کرنے والا ہے ۔مگر یہ نہیں معلوم کہ کُل عوالم کتنے ہیں؟اور ان کے پرورش کے طریقے کیسے ہیں ؟باوجود یکہ ہم دیکھتے ہیں کہ آفتاب وغیرہ نجوم روزانہ اپنے کاموں میں مشغول ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ جب تک ان کی پرورش خاص طورپر نہ ہو وہ کام نہیں کرسکتے ،مگر یہ نہیں معلوم ہوسکتا کہ ان پرورش خاص طورپر نہ ہو وہ کام نہیں کرسکتے،مگر یہ نہیں معلوم ہوسکتا کہ ان کی پرورش کس طریقے سے ہوتی ہے ؟کیونکہ پرورش کے طریقے مخلف ہیں ۔ چناچہ جب ہم اپنے نزدیک کی چیزوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہر نوع کی پرورش کا طریقہ ہی جداپاتے ہیں ؟مثلاً نباتات کی پرورش صرف مٹی اورپانی سے ہے اور حیوانات کی پرورش نباتات اور پانی وغیرہ سے اور انسان کی پرورش کا طریقہ ہی جداہے ۔چونکہ انسان کی پرورش کا ذکر اس مقام میں آگیا اس لئے اجمالی طورپر اس کا کچھ ذکر کیا جا تاہے :
یہ بات معلوم ہے کہ آدمی کی زندگی کا مدار چار خلطوں پر ہے : بلغم ، خون ،صفرا اور سوداء ۔ان سب میں خون نہایت لطیف چیز ہے ۔چناچہ بعض حکیموں کے نزدیک تو خون ہی آدمی کی جان ہے ۔ او راکثر کاقول ہے کہ خون سے روح حیوانی بنتی ہے ۔بہر حال خون مادۂ حیات ہے مگر اس میں کسی قسم کا فساد آجاتاہے تو وہ ہی سم قاتل بن جا تا ہے ۔عورتوں کی طبیعت میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ کل خون اس کا جز و بدن نہیں ہوتا بلکہ ہر مہینے کسی قدر معمول میں خارج ہو جاتاہے ،اگر وہ خارج نہ ہوتو اقسام کے امراض پیدا ہو تے ہیں جو باعث ہلاکت ہو تے ہیں ۔ اب دیکھئے کہ یہی خون جس کا دفع ہونا ضروری تھا حمل ہوتے ہی وہ جمع ہو نے لگتاہے اور غالباً بچے کے جسم کا تغذیہ اسی سے ہوتا ہے ،اب اُس میں جان بھر جاتی ہے تو وہی خون ناف ذریعہ سے اس کے جسم میں سرایت کرکے اس کاجزو بدن بنتاہے ،اگر یہی خون ماں کے اعضاء میں سرایت کرنے لگے تو نوبت بہلاکت پہونچ جائے ۔اور بچہ باوجود یکہ نہایت نازک اور ضعیف القویٰ ہے مگر اسی مادہ ٔسمی کو نوش جان کرکے اس زاویہ ،تیرہ و تار میں اپنے پروردگار کا شکر جان ودل سے بجا لاتا ہے ۔اگر اس مقام میں اس کے ربرو بریا نی ومز عفر رکھا جائے تو ہرگز اس کی طرف رخ نہ کرے گا بلکہ وہ اس کے حق میں سم قاتلہے،جس سے معلوم ہواکہ بچے کی غذاء ماں کے حق میں سم قاتل ہے اور ماں کی غذاء بچے کے حق میں سم قاتل ہے ۔ایک مدت معنیہ تک کھانا ،پانی ، دوا ، غذاء ،جو کچھ کہئے وہی ایک شئے ہے جو اس کی ماں کے حق میں زہر ہلال سے کم نہیں ۔چونکہ وہ ایک ایسے مقام میںہے کہ جہاں نہ نباتات کا وجود ہے نہ حیوانات وغیرہ کااور نہ اپنے قوت بازو سے کسب معاش کر سکتا ہے اس لئے ربوبیت الٰہی نے اس کے لئے یہ تدبیر کی کہ بغیر ہاتھ پائوں اور منہ ہلانے کے ناف کے ذریعہ سے خود بخود اس کو غذاء پہنچتی رہے جس کی نہ اس کو خبر ہے نہ اس کے ماں باپ کو ۔جب ہمیں یقینی طورپر معلوم ہوگیا کہ ربوبیت کسی خاص طریقہ کی پابندی نہیں، مقام تنگ و تاریک میں جہاں انسان کی وسترس نہ ہو وہاں روزی فراہم کردے زہر سے غذاء کاکام اور ناف سے منہ کا کام لے تو بڑی ہٹ دھر می کی بات ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت انہیں امور میں منحصر اور محدود کر دی جائے جو عادت میں جا ری ہیں ۔
یہاں ایک لطیف بات قابل توجہ ہے ، وہ یہ کہ احادیث سے ثابت ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اِس عالم میں تشریف فرماہوئے تو آپ کا نال کٹا ہو تھا ،اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کی غذا ایام حمل میں وہ نہ تھی جو ہر فرد بشر کی ہوا کرتی ہے یعنی خون حیض ،کیونکہ اس کے پہونچا نے کا ذریعہ ہی مقطع کر دیا گیا تھا،اگر چہ اس مقام میں وہ خون نہ شرعاً نجس ہے نہ عقلاً عالم تخیل میں تو اس سے کراہت ضرور ہوتی ہے ، اس لئے حق تعالیٰ نے اپنے حبیب علیہ والصلاۃ والسلام کے حق میں یہ بھی گوارا نہیں فرمایا اور وقت با سعادت یہ بات سب پر منکشف کر ادی گئی کہ اُس عالم میںآپ کی غداء بھی کچھ اور تھی پھر اِس عالم میں بھی اصلی غذاء آپ کی کچھ اور ہی تھی جس کا حال خود اپنی زبان فیض ترجمان سے فرما تے ہیں کہ أبیت عند ربی فیطعمنی ویسقینی یعنی : میں رات کو اپنے پروردگار کے یہاں رہتا ہوں وہ مجھے کھلاتااو ر پلاتا ہے ‘‘ ۔ ظاہر بین اس طعام و شراب کی حقیقت کیا جا نیں ! اگر فقط لاعلمی ہو تو مضائقہ نہیں کیو نکہ آدمی بہت ساری چیزوں کو نہیں جانتا جس کا سب کو اعتراض ہے ، مگر قابل افسوس یہ بات ہے کہ بعض لوگ اپنی لا علمی کو اس

بات پر دلیل بنا تے ہیں کہ اس کی کچھ اصل ہی نہیں ! ان سے یہ پوچھا جائے کہ ہم ہی تھے کہ ایک سمی مادے کو مدتوں ہضم کر تے رہے اور اب نہیں کرسکتے ، ہم میں کون سی چیز کم ہوگئی جس سے اس کے ہضم کر نے کی قوت باقی نہ رہی ؟ ! ہمارے اصلی اعضاء جو اس وقت ضعیف تھے اب قوی ہوگئے ،تماقوتوں میں کمال پیداہوگیا ،اس سے تو یہ لازم آتاہے کہ قوت ہاضمہ اچھی طرح اس کو ہضم کر سکے ؟ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اس کی کوئی ایسی وجہ نہ بتلا سکیں
گے جو تشفی بخش ہو ۔ پھر جب اس غیر معمولی غذاء کو مان گئے تو دیگر غیرمعمولی غذائوں کو ماننے میں کیا نقصان ہوگا ؟ !
الغرض ایک مدت ربوبیت کا ظہور اس طرح ہوتا رہا جس کا حال ابھی بیان کیا گیا ۔ اس کے بعد جب ہم اس نہاں خانہ ،بطون سے جلوہ گاہ ظہور میں برآمد ہوئے تو شان ربوبیت دوسرا رنگ لائی ، وہی خون جو ہمارے اس مسکن میں ابری کی طرح ہمیں سیراب کرتا تھا اب نیچے سے اوپر کی جانب چڑہا یا گیا اور ان حوضوں میں پہونچا جو مدتوں سے سوکھے پڑے تھے ،وہاں اس نے ایسی صورت بدلی کہ پہلی صورت کا نام و نشاں تک باقی نہ رہا ،اس کاقوام نہایت لطیف اور رنگ نہایت براق ،ذائقہ نہایت شیریں اورنہایت خوشگوار ہوگیا ،اور ان حوضوں میں فوارے لگا دئے گئے ، یہ سامان
ربوبیت ہمارے یہاں آنے سے پہلے ہی کر دیا گیا ۔مگر اب وہ عالم کہاں جس میں بغیر مانگے اور بغیر ہاتھ پائوں ہلائے کے رزق خود ہمارے پاس آتا بلکہ خود بخود ہمارے جسم میں چلاجاتا تھا ؟ !اب تو ہوا ہی پلٹ گئی او ر بغیر کوشش کئے اس کا ہم تک پہونچنا دشوار ہوگیا ، دیکھا کہ وہ نہ ہم تک آتاہے نہ ہم اس تک جا سکتے ہیں ،اپنی بے بسی پر بے اختیار رو دیا ۔ع لمؤ لفہ :
زمانے تک رہا رونا عدم کے چھوٹ جانے پر
فرد ہوتا گیا پھر رنج و غم آہستہ آہستہ
اِدھر شان ربوبیت نے ماں میں شفقت پیداکردی کیسی ہی حالت میں ہورونے کی آواز پر اس کے کان لگے ہوئے ہیں ، جہاں بچہ رویا بے قررا ہو کر خوان نعمت لے کر دوڑی ،اب زحمت ہے تواس قدرہے کہ اپنے ہونٹوں کو حرکت دے کر اپنی غذاء حاصل کرلیں ۔ یہ طریقہ اس زمانہ تک رہا کہ ثقیل غذاء کو بذریعہ آلات یعنی دانت سے پیس کر نہیں کھاسکتے تھے ،اس کے بعد جب دانت دیے گئے تو اب ربوبیت کا طریقہ دوسر امقرر کیا گیا ،اورہر قسم کی ثقیل اور کثیف غدائیں کھانے لگے ۔ یہ تو ایک عام بات تھی ،اگر تفصیلی نظر ڈالی جائے تو ہر عضو کی ربوبیت اور پرورشی کا طریقہ ہی علحدہ ہے ۔
دیکھئے اس ایک غداء سے جو کھائی جا تی ہے مختلف مقاموں میں مختلف چیزیں پیدا ہو تی ہیں ۔سب میں نہایت نرم گوشت ،ہڈی نہایت سخت مثل پتھر کے ،پٹھے ایسے مضبوط کہ جس جن کا ٹوٹنا مشکل ،جس عضو کی طبیعت دیکھئے جدا ، کوئی نہایت گرم ہے تو کوئی نہایت سرد ،کسی کارنگ سرخ ،کسی کا سفید وسیاہ وغیرہ ۔غرض کہ اس چھوٹے سے جسم میں اتنے کارخانے قائم ہوئے جو تمام عالم میں ہیں ، اور ہر ایک کا رزق اسی ایک غذاء سے حاصل ہوتاہے اور سب اپنا اپنا رزق حاصل کرکے رب العالمین کی شکر گزاری میں مشغول رہتے ہیں ۔ جس طرح ہمیں خبر نہیں ہوتی کہ ہر ایک کارزق کس طرح پہونچا ان کا شکر کرنے کاحال بھی نہیں معلوم نہیں ہوسکتا ۔ ان کے رزق پہونچانے میںاگر ہمارے فعل کو دحل ہے تواس قدرہے کہ ہم اس کواپنی قوت سے حلق کے نیچے اتار دیتے ہیں پھر نہیں معلوم کہ اس اندھیری کوٹھری میں کیا کیاہوتاہے ؟! دراصل حلق سے نیچے پہونچانا بھی ہمارے اختیار میں نہیں وہ بھی ربوبیت ہی سے تعلق رکھتا ہے ،دیکھئے اگر ایک پٹھے میں بھی فرق آجائے تو منہ کا کھلنا دشوارہے ۔غرض کہ ربوبیت الٰہی کے کرشمے بے حد بے حساب ہیں ،عالم توایک بڑی چیز ہے صرف ہم اپنے آپ ہی کو دیکھیں توعمر تما م ہوجائے اور اس کا علم ہنوز ناتمام رہے ۔
آدمی کا ذاتی مقتضیٰ ہے کہ جس شحص سے اپنی پرورش متعلق ہو تی ہے اس کا نہایت ممنون احسان ہو کر سرگرمی سے اس کی خدمت و اطاعت میں مشغول ہو تا ہے ،دیکھئے ایک مہینے کے بعد جو شحص ماہوار دیتاہے اس کی خدمت و اطاعت روزانہ ایک مہینے تک کرنی مشکل نہیں ہوتی ،ذاتی کاروبار چھوڑ کر آدمی خوشی سے اس کے کاروبار میں مشغول ہوتاہے اور اس کاخیال بھی نہیں ہوتا کہ ہم اس پر کوئی احسان کر رہے ہیں بلکہ اسی کا احسان مانتے ہیں جس نے نوکر رکھا ،چناچہ حضرت شیح سعدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :

مِنت مِنہ کہ خدمت سلطان ہمی کنی
منت شناس از د کہ بخدمت بداشتت
پھر اگر غور کیا جائے تو نوکری وغیرہ ملنی بھی ربوبیت ہی کا اثر ہے اس لئے ابھی معلوم ہواکہ ربوبیت ہر وقت با قتضا ئے حال بدلتی گئی ،جب وہ زمانہ آگیا کہ اپنی قوت با زو پر گھمنڈ اور لوگوں کے دینے لینے پر بھروسہ ہے تو اس وقت کا اقتضاء یہی تھاکہ خواہ اطاعت کر و یا نہ کرو اور خالقیت کا اعتراف کرو یا نہ کرو ربوبیت اور پرورشی میں فرق نہیں آسکتا ،کیونکہ جس مدت تک اِس عالم میں رکھنا ہے اُس وقت تک روزی دینے کی ضرورت ہے ،جس طرح ساطین قیدیوں کو بھی روٹی دیتے ہیں ، گو کیسا ہی سخت مجرم اور باغی ہو ۔ ہاں اتنا فرق ہے کہ سلاطین نے دار الجزاء قید خانہ کو بنا یا ہے اس لئے وہ روزی دینے میں بھی سزا کا لحاظ رکھتے ہیں بعض کم مقدار اور ادنیٰ درجہ کی غذا دیتے ہیں۔
اور حق تعالیٰ نے چونکہ دالمکانات اورجزاء اور سزا دوسرے عالم میں رکھے ہیں اس لئے ان کی روزی پر یہاں کچھ اثر نہیں ڈالا گیا بلکہ مجرموں کوبے جرموں سے زیادہ اور عمدہ غذائیں اور آسائشیں یہا ں دی جا تی ہیں ، کیونکہ اس کو رحمت گوارا نہیں کرسکتی کہ ایک مجرم کی سزا اس عالم میں بھی ہو اور اس عالم میں بھی ،چناچہ حدیث شریف میں وارد ہے الدنیا جنۃ الکافروین اور حق تعالیٰ فرما تا ہے نملی لھم ان کید متین یعنی ہم ان کو مہلت دیتے ہیں ۔ چونکہ لوگوں کی عقلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اس لئے ان کی نظر اس پر پرتی ہی نہیں کہ جب سے ہم ماں کے رحم میں آئے تو تب سے اب تک ہر آن و ہر لحظہ کیسی کیسی پر ورشیاں ہوئیں ہیں ! اسی وجہ سے رزاق حقیقی سے ان کوکوئی تعلق نہیں ہوتا ،اور اسی کو آقا اور رازق سمجھتے ہیں جو کوئی کچھ دے دیتا ہے۔بخلاف ان کے جن کی عقلیں سلیم ہو تی ہیں ان کی نظرہر ایک موقعہ کی ربو بیت پر پڑتی ہے اور سمجھ جا تے ہیں کہ اس موقعہ میں بھی ربوبیت کا ظہور خاص طور پر ہو رہا ہے اس لئے وہ تمام وسائط میں ربوبیت الٰہی کو مدنظر رکھتے ہیں ،ہر وقت شکر الٰہی بجا لاتے ہیں ، اور چونکہ ان وسائط کی شکر گزاری کا بھی حکم ہے چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما تے ہیں من لم یشکر الناس لم یشکر اللہ یعنی لوگوںکی شکر گزاری بھی ضروری ہے اس لئے محض اتثا ل امر کے لحاظ سے اپنے محسن کے بھی شکر گزار رہتے ہیں ۔اور حق تعالیٰ فرماتا ہے وقل رب ارحمہما کما ربیانی صغیراً یعنی :’’اے میرے رب جس طرح میرے ماں باپ نے مجھے پرورش کی تو ان پر رحم کر ‘‘ ۔ دیکھئے اس آیت شریفہ میں تعلیم ہے کہ ماں باپ کی ربوبیت بھی مانی جائے او رخالق کی ربوبیت بھی ، کیونکہ لفظ ’’ربیانی ‘‘ سے ان کی ربوبیت اور ’’ربی‘‘سے خالق کی ربوبیت ثابت ہے،کیونکہ اصل ربوبیت خالق عزول کی ہے اس لئے اس کی شکر گزاری اور عبادت فرض ہے ،حق تعالیٰ فرما تا ہے ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاامو فلا خوف علیہم ولا ہم یحزنون اولٰئک اصحاب الجنۃ خالدین فیہا جزء اً بما کانو ایعملون یعنی ’’جن لوگوں نے کہاکہ اللہ ہمارارب ہے اور پھر اس پر استقامت کی تونہ ان کو کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہو گے ،وہی لوگ جنت والے ہیں ،جوہمیشہ اُس میں رہیں گے ، یہ نتیجہ ان اعمال کا ہے جو وہ کرتے تھے ‘‘۔ اس سے ظاہر ہے کہ صرف خدا کو رب کہہ دینا کافی نہیں بلکہ اس پر استقامت بھی ضروری ہے ،اور جب تک وہ مشاہدہ اور ایسے اعمال صادر نہ ہوں جوشکر گزاری پر دلیل ہیں استقامت صادق نہیں آسکتی ۔ اسی وجہ سے اس آیت شریفہ میں جنت جزائے اعمال قرار دی گئی ہے جو شکر گزار ی پر دال ہے ۔ اور دوسری جگہ ارشاد ہے ان الذین قالو ا ربنا اللہ ثم استقامو تتنزل علیہم الملائکۃ ان لا تخافو ا ولا تحزنو ا وأبشرو ابالجنۃ التی کنتم توعدون O نحن اولیائو کم فی الحیوٰ ۃ الدنیا وفی الآخرۃ ولکم فیہا ما تشتہی انفسکم ولکم فیہا ما تدعون Oتنزلاً من غفو ر رحیم Oیعنی ’’جن لوگوںنے کہاکہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے ان پر فرشتے نازل ہوگے اور یہ کہیں گے کہ اب نہ تم ڈرو او رنہ غمگین ہو اور خوش ہو جائو اس جنت سے جس کا تم وعدہ دیے جا تے تھے ،ہم تمہارے دوست ہیں دنیا اور آخرت میں ،اب اس میں تمہارے لئے وہ چیزیں ہیں جن کی خواہش تمہا رے نفس کریں اور اس میں تمہارے لئے مہمانی ہے بخشنے والے اور رحم کرنے والے کی جانب سے ‘‘۔ ان آیات شریفہ میں ان لوگوں کے مدارج بیان کئے گئے ہیں جو ’’ ربنا اللہ ‘‘ کہہ کر اس پر استقامت کرتے ہیں ۔ دیکھئے کس درجہ کا تقریب حاصل ہے کہ قیامت میں جب غضب الٰہی جوش میں ہوگا اور ہر طرف سے نفسی نفسی کی صدائیں بلند ہو

ں گی ،ان حضرات کے پاس فرشتے آئیں گے اور انہیں کہیں گے کہ : تمہیں آج کچھ خوف نہیں اور ہر گز غمگین نہ ہو تمہاری سب خواہش پوری ہوں گی او رخداکے مہمان ہوں گے ۔
یو ں تو اللہ تعالیٰ کو رب کہنے والے سب مسلمان بلکہ کفار بھی ہیں ،مگر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ کسی مسلمان کو قیامت میں کچھ غم او رخوف نہ ہوگا ؟ ہر گز نہیں کیونکہ اس روز خوف وغم ہونا نصوص قطعیہ اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے ،صرف اہل استقامت کے حق میں لا خوف علیہم ولا ہم یحزنون وارد ہے کہ ایسے خوف و غم کے روز وہ بے خوف وبے غم رہیں گے ۔ جب خوف و غم نہ ہونا اولیاء اللہ کاخاصہ ٹھیر اور ربنا اللہ کہہ کر استقامت کرنے والوں کو بھی خوف و غم نہ ہوگا تو معلوم ہوا کہ یہ حضرات اولیاء اللہ ہی ہیں ،ا س صورت میں یہ کہنا پڑے گا کہ ا ن کاربنا اللہ کہنا معمولی طورپر نہیں بلکہ ان کومشاہدہ ٔ ربوبیت ہمیشہ رہتا ہے ۔ پھر ان میں دوفریق ہیں ایک وہ کہ وسائط کی ربوبیت میں خالق کی ربوبیت کا مشاہدہ کر تے ہیں ،اور ایک وہ کہ خالق ہی کی ربوبیت ان کے پیش نظر رہتی ہے اور وسائط ان کے نظروں سے بالکل ساقط ہو جا تے ہیں ۔ اس کی مثال سمجھنی چاہئے کہ کسی میدان میں شمع رکھی ہو اور صبح صادق طلوع کرے تو ابتداء میں توشمع کی روشنی نمایاں رہے گی مگر جو ں جوں صبح کی روشنی بڑھتی جا ئے گی شمع کی روشنی دھیمی ہو تی جائے گی یہاں تک کہ جب آفتاب طلوع ہو جائے اس وقت شمع کی روشنی بالکل محسوس نہ ہوگی ۔ اسی طرح جوں جوں ربوبیت الہیہ کا مشاہدہ بڑھتاجا تا ہے وسائط کی ربوبیت مضمحل ہو تی جا تی ہے ،اور جب مشاہدہ کمال درجہ کو پہونچ جا ئے تو کسی کی ربوبیت کا خیال بھی نہ آئے گا ،اورجس طرح روز میثاق ألست بربکم کے جواب میں خالص ربوبیت الہیہ کا مشاہدہ تھا ، ان حضرات کو ہر وقت وہی مشاہدہ رہتا ہے ۔ پھر ان میں بھی دوقسم کے لوگ ہوںگے بعض سمجھتے ہوں گے کہ ربوبیت کے وسائط مضمحل ہیں مگر فی الواقع موجود ہیں ۔ اور بعضو ں کا یہ خیال ہوگا کہ ربوبیت کے وسائط برائے نام ہیں ،جیسے ہاتھ سے کسی کامار تے ہیں تو مار ہاتھ کی طرف منسوب کی جاتی ہے حالانکہ مارنے والا دراصل نفس ناطقہ ہے ۔
بہر حال ربنا اللہ کہنے والی ایک جماعت مسلمانوں میں ایسی ہونا چاہئے کہ عملاً یہ ثابت کر دکھائے کہ ان کے نزدیک اللہ کے سوا ے کوئی پرورش کر نے والا ہے ہی نہیں ۔ چناچہ بزرگا ن دین کے اقوال و احوال سے ظاہر ہے کہ نہ انہوں نے کسی سے کچھ مانگا نہ اور کوئی تدبیر کی ،بلکہ توکل پر ان کی گزارا ن رہی ۔ یہ ان کا ذاتی خیال نہیں بلکہ تعلیم الٰہی بھی اس قسم کی انھیں ہوئی ،کیونکہ مدار مدارج عالیہ کا ربنا اللہ کہنے پر رکھا گیا ہے ۔ اہل مذاق جانتے ہیں کہ ربنا اللہ سے توحید ربوبیت مقصود ہے ،ورنہ اللہ ربنا ہوتا ،اسی وجہ سے رب الناس ارشادہوا جس سے ظاہر ہے کہ کل آدمیوں کی پرورش اسی سے متعلق ہے ۔

Exit mobile version