الذی یُوَسْوِسُ
الذی موصول او راس کے بعد کا جملہ صلہ ہے ،موصول اور صلہ میں ربط تام ہو تا ہے ،اسی وجہ سے موصول اپنے صلہ کے ساتھ مل کر مفرد ہوتا ہے کیونکہ صلہ میں موصول کا حال ہو تا ہے ۔موصول ہر چند ذات معین پر دلالت نہیں کرتا مگر صلہ کے ساتھ مل کر معرفہ ہو جا تا ہے ،اس لئے کہ جوحالت اس کی صلہ میں بیان کی جا تی ہے اس کو مخاطب جانتا ہے جس سے اس کی تعیین ہو جا تی ہے ،مثلاً الذی ضریک فی الدار یعنی جس نے تجھے مارا ہے وہ گھر میں ہے ،چونکہ مارنے والا مخاطب کو معلوم ہے اس لئے اس کی تعیین ذہن مخاطب میں ہوگئی ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے حق تعالیٰ کی ذات ،کہ کو ئی اس کو پہچان نہیں سکتا کیونکہ وہاں تک نہ عقل کی رسائی ممکن ہے نہ فہم و و خیال کی ،اس وجہ سے کہ عقل ان ہی چیزوں کا ادراک کر سکتی ہے جو ازقسم محسوسات ہوں جیساکہ ہم نے ’’کتاب العقل ‘‘ میں اس سے متعلق بسوط بحث کی ہے ، اور خداے تعالیٰ کی ذات ایسی نہیں کہ اس کاداراک حواس سے ہو سکے یا عقل ووہم سے ۔
غرضکہ ذات الٰہی کی معرفت محال ہے ،ممکن نہیں کہ سوائے خداے تعالیٰ کے کسی کو اس کا ادراک ہو سکے ۔البتہ اس قدر ادراک ہو سکتا ہے بلکہ ضروری ہے کہ :خدا ے تعالیٰ موجود ہے ،اور خالق عالم ہے ، اور سنتا ہے ،دیکھتا ہے ، اور جتنے صفات کمالیہ ہیں سب کے ساتھ متصف ہے ۔ مقصو دیہ کہ
ذات کے ساتھ صفات کا لحاظ ہو نے سے اس کی معرفت حاصل ہو تی ہے : جیسے موصول کے ساتھ صلہ ملنے سے ،اسی سے ما عرفنا ک حق معرفتک وارد ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ : الٰہی ہم نے تجھ کو پہچا نا مگر جس طرح پہچاننے کا حق ہے وہ معرفت حاصل نہیں۔موصول کی معرفت صلہ کے ملنے سے حاصل ہو تی ہے اور موصول میں وحدث آجا تی ہے وہی بات یہاں بھی ہے ۔