الخناس
الخناس :ہٹنے اور چھپنے والا
احادیث میں وارد ہے کہ شیطان اپنی چونچ (سونڈھ)آدمی کے دل پر رکھ کر وسوسے ڈالتا ہے ،اورجب وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے لتاہے تو وہ ہٹ جا تا ہے ۔
اس سے ظاہر ہے کہ جس دل میں یا د الٰہی ہو شیطان کا اس پر تسلط نہیں ہوسکتا۔اسی وجہ سے اولیاء اللہ گناہوں سے محفوظ ہیں ، اور انبیاء معصوم ،کیونکہ ان حضرات کے دل میں ہر وقت یادالٰہی رہتی ہے یہاں تک کہ دنیوی کاموں میں بھی ان کو غفلت نہیں ہوتی ۔چنانچہ ہم نے مقاصد الاسلام کے کسی حصہ میں اس کو بتفصیل بیان کیا ہے کہ ہر کام میں ایک خاص قسم کاذکرکیا کر تے ہیں ۔حدیث شریف میں وارد ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرما تے ہیں کہ : ’’ لوگ ڈرتے رہو اور شیطان سے بچو ،کیونکہ وہ تم کو آزما تا ہے کہ تم میں کون شخص عمل میں اچھا ہے ‘‘۔مقصود اس سے یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے شیطان سے فرمایا ہے کہ ان عبادی لیس لک علیہم سلطان یعنی میرے خاص بندوں پر تیرا غلبہ نہیں ہوسکتا ۔جب وہ وسوسے ڈالنے کا موقعہ نہیں پاتا یا وسوسہ ڈالتا ہے مگر اس کی کچھ چلتی نہیں تو سمجھ جا تاہے کہ یہ انہیں لوگوںمیں سے ہیں جن پر اپنا تسلط نہیں ،اس وقت دوسری تدایبر میں مصروف ہو تا ہے
چنانچہ حضرت غوث الثقلینؒ کے حال میں لکھا ہے کہ آپ نے اوائل میں بڑے بڑے مجاہدے فرمائے ،ایک رات ذکر الٰہی میں مشغول تھے کہ یکبار گی آسمان پر روشی نمایاں ہو ئی جس سے آفاق روشن ہو گئے آپ متحیر ہو کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگے ، غیب سے آواز آئی کہ اے عبد القادر تم نے بہت عبادت کی اس کے معاوضہ میں ہم تمہیں یہ بدلہ دیتے ہیں کہ جن چیزوں کو اوروں پر حرام کیا تم پر حلال کر دیا !یہ سنتے ہی آپ نے لاحول پڑھی اس کے ساتھ ہی وہ روشنی مبدل بہ تاریکی ہو گئی او رآواز ائی کہ اے عبد القادر میںنے بہت سے لوگوں کو جو اس درجہ پر پہونچے تھے گمرا ہ کر دیا مگر آپ علم کی وجہ سے بچ گئے ۔ یہ ایک بیرونی تدبیر تھی ۔ غرضکہ شیطان بیرونی اور اندرونی تدایبرہمیشہ کر تا اور موقعہ بے موقعہ آزما تاہے ۔او رآخری آزمائش اس کی موت کے قریب ہو تی ہے جس میں پورا کافر بنا نے کی فکر کر تا ہے ،چنانچہ حق تعالیٰ فرما تا ہے کہ اذقال الشیطان للا انسان اکفر فلا کفر قال انی بری ئٌ منک انی اخاف اللہ رب العالمین یعنی : جب کہتا ہے شیطان انسان کو کہ کافر ہو جا !اگر وہ کافر ہوگیا تو کہتا ہے میں تجھ سے بری ہوں میں خداے تعالیٰ رب العالمین سے ڈرتا ہوں ۔
’’آکام المرجان فی احکام الجان ‘‘ میں ایک روایت نقل کی ہے کہ جب مسلمان شیطان کے فتنوں سے بچ کر حالت ایمانی پر مرتا ہے تو شیطان کو نہایت غم ہو تا ہے او اس طرح روتا ہے کہ کوئی گھر والوں کے مرنے پر بھی نہیں روتا ۔ اسی میں لکھا ہے کہ امام احمد بن حنبل ؒنے موت کے قریب ’’لا بعد لابعد ‘‘ کہا جب انہیں افاقہ ہوا تو ان کے فرزند صالح نے پوچھا کہ آپ نے’’ لا بعد لا بعد‘‘ جو فرمایا ہو کیا بات تھی ؟فرما یا کہ شیطان نے میرے سر کے پاس آکر مجھ سے کہا کہ اے احمد میں کچھ پوچھتا ہوں فتویٰ دیجئے !میں نے ’’لابعد لا بعد ‘‘ کہا یعنی اس وقت نہیں ،بعد دیکھا جائے گا ۔ معلوم نہیں کہ کس قسم کا سوال اس نے سونچ رکھا تھا جس سے ایسے جلیل القدر امام کے ایمان کوسلب کرنے کی فکر تھی۔
اور اسی میں ابو دائود کی حدیث نقل کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعاء کیا کرتے تھے ’’وأعوذ بک ان یتخبطنی الشیطان عند الموت ‘‘یعنی :’’یا اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں کہ موت کے قریب شیطان مجھے مخبوط بنادے ‘‘۔ اگر چہ کہ یہ دعاء امت کی تعلیم کے واسطے تھی ، مگراس سے صاف ظاہر ہے کہ شیطان موت کے قریب اپنا پورا زور لگا تا ہے ۔
اور اسی کتاب میں صالح بن احمد بن حنبل سے ایک روایت منقول ہے کہ جب فرشتے مسلمان کی روح آسمان پر لے جا تے ہیں تو وہاں کے
فرشتے تعجب کر کے کہتے ہیں کہ اس شخص نے شیطان کے ہاتھ سے کس طرح نجات پائی؟! ابن جوزیؒ نے تعجب کی وجہ لکھی ہے کہ :شیطان کے فتنے کثرت سے ہیں اور دل کے پاس اس کا مقام ہے ،اور وہ ایسی ہی چیزوں کی طرف لے جاتا ہے جو آدمی کی خواہش کے مطابق ہوں ، اور نفسانی خواہشیں ایسی بلا کی ہیں کہ ہاروت و ماروت جو فرشتے تھے جب خواہشیں انہیں دی گئیں تو وہ اپنے کو بچانہ سکے ، تو انسان کس طرح اپنے آپ کو مکر شیطان سے بچا سکتا ہے اور ان امور کے لحاظ سے فرشتے تعجب کر تے ہیں کہ جس طرح اس نے اپنے آپ کو شیطان سے بچایا ہوگا ۔ اب غور کیجئے کہ ایمان دار کو شیطان کے فتنوں سے کس قدر ڈرنا اور ہمیشہ پناہ مانگنا چاہئے ۔