اجارہ کے مسائل سیکھنافرض ہے
دورِ حاضر میں بہت سے افراد تجارت کے بجائے ملازمت کے ذریعے اپنی معاشی ضروریات کو پورا کرتے ہیں لہٰذا انہیں چاہئے کہ اجارے کے مسائل سیکھیں اور اپنی روزی کو حرام کی آمیزش (ملاوٹ)سے بچائیں۔شیخ طریقت، امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنے رسالے ”حلال طریقے سے کمانے کے 50مدنی پھول“ صفحہ 1پر فرماتے ہیں:جس کو مُلازم رکھنا ہے اُسے مُلازم رکھنے کے اور جس کو مُلازمت کرنی ہے اُسے مُلازمت کے ضروری اَحْکام جاننے فرض ہیں۔آئیے!اس رسالے میں بیان کئے گئے چند مدنی پھول مُلاحظہ کیجئے۔
1. سیٹھ اور نوکر دونوں کے لئے حسبِ ضرورت اِجارے کے شرعی احکام سیکھنا
فرض ہے، نہیں سیکھیں گے تو گنہگار ہوں گے۔(1)
1. نوکر رکھتے وقت ، ملازمت کی مدّت ، ڈیوٹی کے اوقات اور تنخواہ وغیرہ کا پہلے سے تَعَیُّن ہونا ضروری ہے۔
2. چاہے گورنمنٹ کا ادارہ ہو یا پرائیویٹ ملازِم اگر ڈیوٹی پر آنے کے معاملے میں عُرف سے ہٹ کر قصداً تاخیر کریگا یا جلدی چلا جائے گا یا چُھٹّیاں کرے گا تو اس نے معاہدے کی قَصْداً خلاف ورزی کا گناہ توکیاہی کیا اور ان صورتوں میں پوری تنخواہ لے گا تومزید گنہگار اور عذابِِ نار کا حقدار ہو گا۔فرمانِ امام احمد رضاخان:’’جوجائز پابندیاں مشروط (یعنی طے کی گئی )تھیں ان کا خلاف حرام ہے اوربکے ہوئے وقت میں اپنا کام کرنا بھی حرام ہے اور ناقص کام کرکے پوری تنخواہ لینا بھی حرام ہے۔‘‘(2)
3. گورنمنٹ کے اِدارے کا افسر دیر سے آتا ہواور اس کی کوتاہی کے سبب دفتر دیر سے کھلتا ہو تب بھی ہر ملازِم پر لازم ہے کہ طے شدہ وقت پر پہنچ جائے اگرچہ باہر بیٹھ کر انتظار کرنا پڑے۔ خائن و غیر مختار افسر کا ملازِم کو دیر سے آنے یاجلد ی چلے جانے کا کہنا یا اجازت دے دینابھی ناجائز کوجائز نہیں کر سکتا۔وقت کی پابندی سبھی پر ضروری ہی رہے گی۔
.5لازِم دفتر یادکان پر آنے جانے کا وقت رجسٹروغیرہ میں درست لکھے،اگر غلط بیانی سے کام لیا اور ڈیوٹی کم دینے کے باوجود پورے وقت کی تنخواہ لی تو گنہگار وعذابِِ نار کا حقدار ہے۔
.6جن اداروں میں ملازِمین کوعلاج کی مفت سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں، اِن میں جھوٹے بہانوں سے دوا حاصل کرنا،اپنا نام لکھوایا بتا کر کسی دوسرے کیلئے دوا نکلوا لینا وغیرہ حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔ ایسوں کے ساتھ جان بوجھ کر تعاوُن کرنے والا بھی گنہگار ہے۔
.7تنخواہ زیادہ کرانے اور عہدے وغیرہ میں ترقی کروانے کے لیے جعلی(نقلی) سند لینا ناجائز و گناہ ہے، کیونکہ یہ جھوٹ اور دھوکے پر مبنی ہے۔
اگرکسی عذر کی وجہ سے اَجیر خاص کا م نہ کرسکا تو اُجرت کامستحق نہیں ہے مَثَلاً بارش ہورہی تھی جس کی وجہ سے کام نہیں کیا اگرچہ حاضر ہوا اُجرت نہیں پائے گا(یعنی اُس دن کی تنخواہ نہیں ملے گی)۔ (1) البتہ اگر اِس کی تنخواہ کا بھی عُرْف ہے تو ملے گی کہ تعطیلات معہودہ (یعنی جن چھٹیوں کامعمول ہو تا ہے اُن )کی تنخواہ ملتی ہے ۔
.9مراقب(یعنی سپر وائزر)یامقررہ ذِمے دارتمام مزدوروں کی حسب استطاعت نگرانی کرے۔ وقت اور کام میں کوتاہی اور سستیاں کرنے والوں کی مکمَّل
کارکردَگی ( رَپورٹ) کمپنی یا ادارے کے مُتَعَلّقہ افسر تک پہنچائے ۔ مراقب (سپروائزر) اگر ہمدردی یا مُروَّت یا کسی بھی سبب سے جان بوجھ کر پردہ ڈالے گا تو خائن وگنہگار اور عذابِ نار کا حقدار ہو گا۔
.10کسی مذہبی ادارے میں اِجارے کے شَرْعی مسائل پر سختی سے عمل دیکھ کر نوکری سے کترانا یا صرف اِس وجہ سے مُسْتَعفی ہو کر ایسی جگہ ملازَمت اختیار کرلینا جہاں کوئی پوچھنے والا نہ ہو انتہائی نامناسِب ہے۔ ذِہْن یہ بنانا چاہئے کہ جہاں اِجارے کے شَرْعی اَحکام پر سختی سے عمل ہو وَہیں کام کروں تا کہ اِس کی بَرَکت سے مَعصِیَت کی نحوست سے بچوں اور حلال اورستھری روزی بھی کماسکوں۔
.11ملازِم اپنے دفتر وغیرہ کا قلم ، کاغذ اور دیگر اشیاء اپنے ذاتی کاموں میں صَرْف کرنے سے اجتناب(یعنی پرہیز) کرے ۔
.12اگراِدارے کی طرف سے ذاتی کام میں ٹیلیفون استعمال کرنے کی اجازت ہو تواجازت کی حدتک استعمال کرسکتے ہیں اگراجازت نہیں توذاتی کام کے لیے استعمال کرناناجائز وگناہ ہے۔
.13اجارے کے وقت میں کبھی کبھار بَہُت قلیل (یعنی تھوڑے سے )وقت کیلئے ذاتی فون سننے کی عُرفاً اجازت ہوتی ہے۔البتّہ اگر کوئی اِجارے کے اَوقات میں باربار فون سنتا ہے اور پھر بات چیت بھی دس پندر منٹ سے کم نہیں ہوتی ا س طرح کے ذاتی فون سننا جائز نہیں کہ اس طرح کام اورمُسْتاجر(یعنی اجارے پر
لینے والے) کا بھی نقصان ہوگا ۔
.14ملازم نے اگر مَرَض کی وجہ سے چھٹّی کر لی یا کام کم کیا تومُسْتاجر(یعنی جس سے اِجارہ کیا ہے اُس) کو تنخواہ میں سے کٹوتی کرنے کا حق حاصل ہے۔ مگر اِس کی صورت یہ ہے کہ جتنا کام کم کیا صرف اُتنی ہی کٹوتی کی جائے مَثَلاً 8گھنٹے کی ڈیوٹی تھی اور تین گھنٹے کام نہ کیا تو صرف تین گھنٹے کی اُجرت کاٹی جائے، پورے دن بلکہ آدھے دن کی اُجرت کاٹ لینا بھی ظلم ہے۔(1)
.15متولیان مسجِد کی رِضامندی کی صورت میں امام و مُؤَذِّن عُرْف سے زائد چُھٹّیوں میں اپنا نائب دیدیا کریں تو تنخواہ نہیں کاٹی جائے گی۔
.16امام،مُؤَذِّن یا کسی بھی دکان وغیرہ کا ملازِم سخت بیمار ہو جائے یا اُس کے یہاں کوئی انتقال کر جائے تو اِن صورَتوں میں ہونے والی چُھٹّیوں میں وہاں کا عُرف دیکھا جائے گا اگر تنخواہ کاٹنے کا عُرف ( یعنی معمول) ہے تو کاٹ لی جائے ورنہ نہ کاٹی جائے۔
.17امام یا مُؤَذِّن یا مدرِّس یا کسی ملازِم کا گھر دُور ہے ،’’پیّا جام ہڑتال ‘‘کی وجہ سے سواری نہ ملی یا ہنگاموں کے صحیح خوف کے سبب چھٹی ہو گئی تو اگرپہلے سے طے ہو گیا تھا کہ ایسے مواقع پر تنخواہ نہیں کاٹی جائیگی یا وہاں کاعُرف (یعنی معمول) ہی ایسا ہو کہ ایسے مواقع پر کٹوتی نہیں ہوتی تو اس طرح کی چھٹی
کی تنخواہ پائے گا۔ یادرہے! معمولی ہڑتا ل چھٹی کیلئے عذر نہیں ۔
.18چوکیدار ،گارڈ یا پولیس وغیرہ جن کا کام جاگ کر پہرا دینا ہوتا ہے اگر ڈیوٹی کے اوقات میں اِرادۃً سو گئے تو گنہگار ہوں گے اور( قصداً یا بِلاقَصْد) جتنی دیر سوئے یا غافِل ہوئے اُتنی دیر کی اُجرت کٹوانی ہوگی۔
.19ایک ہی وقت کے اندر دو جگہ نوکری کرنایعنی اجارے پر اجارہ کرنا ناجائز ہے۔ البتّہ اگر وہ پہلے ہی سے کہیں نوکری پر لگا ہواہے تواب اپنے سیٹھ کی اجازت سے دوسری جگہ کام کرسکتا ہے،جب کہ پہلی جگہ کے سبب دوسری جگہ کے کام میں کسی طرح کی کوتاہی نہ ہوتی ہو۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
1…دعوت اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ بہارِ شریعت جلد3حصّہ14 صَفْحَہ104 تا184میں اِجارے کے تفصیلی احکام درج ہیں
2…فتاویٰ رضویہ،۱۹/۵۲۱