ااتا نبوت
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عادت شریف تھی کہ ہر سال موسم حج میں تمام قبائل عرب کو جو مکہ اور نواح مکہ میں مو جود ہو تے دعوت اسلام دیا کر تے تھے۔ اسی غرض سے ان کے میلوں میں بھی تشریف لے جا یا کرتے ان میلوں میں سے عُکاظ و مجنہ و ذُوالمجازکاذ کر حدیث میں آیا ہے۔ عُکاظ جواِن سب سے بڑا تھا نَخْلہ وطائف کے درمیان
طائف سے دس میل کے فاصلہ پر لگا کر تا تھا۔یہ عرب کی تجارت کی بڑی منڈی اور شعراء کا دنگل تھا، ذیقعدہ کی پہلی تاریخ سے بیس تک رہا کرتاتھا۔ پھر مَجَنَّہ جو مَرُّالظّہْران کے متصل مکہ سے چند میل پر تھا، اخیر ذیقعدہ تک لگتا۔ اور ذُوالمجاز جو عرفہ کے متصل تھا ذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے آٹھویں تک قائم رہتا، بعد ازاں لوگ حج کو نکلتے۔آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم لوگوں کے ڈیر وں پر جاکر تبلیغ فرماتے مگر کوئی آپ کی نصرت کا دم نہ بھر تا تھا۔ عرب کے قبائل جن کے پاس حضرت بغرض تبلیغ تشریف لے گئے یہ ہیں : بنوعامِرمُحارِب، فزارَہ ، غَسَّان، مُرَّہ ، حَنِیفَہ، سُلَیم، عبس، بنونَضْر، کندہ، کَلْب، حارث بن کعب عذرَہ، حضارمہ، ان سب کو آپ نے دعوت اسلام دی مگر کوئی ایمان نہ لایا۔ ابولہب لعین ہر جگہ ساتھ جاتا جب آپ کہیں تقریر فرماتے تو وہ برابر سے کہتا: ’’ اس کا کہنا نہ مانیو! یہ بڑا دَروغ گو، دین سے پھرا ہوا ہے۔ ‘‘
اللّٰہ تعالٰی کو اپنے دین اور اپنے رسول کا اعزاز منظور تھااس لئے نبوت کے گیارہویں سال ماہ ِرجب میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حسب عادت مِنیٰ میں عقبہ کے نزدیک جہاں اب مسجد عقبہ ہے قبیلہ خزرج کے چھ آدمیوں کو اسلام کی دعوت دی تو وہ ایمان لے آئے۔
واضح رہے کہ مَدینہ کا اصلی نام یثرب تھا، (1) بہت قدیم زمانہ میں یہاں قوم عمالقہ کے لوگ آباد تھے ، ان کے بعد شام سے یہود آبسے اور انہوں نے یثرب اور اس کے نواح میں اپنی سکونت کے لئے آہستہ آہستہ چھوٹے چھوٹے قلعے بنا ئے، جب مَآرِب واقع یَمَن میں سَیْلِ عَرِم (2) آیا تو وہاں کے لوگ یَمَن سے نکل کر مختلف جگہوں میں چلے گئے۔ چنانچہ قبیلہ ازدبن غوث قحطانی کے دوبھائی اَوْس وخَزْرَج یثرب میں آبسے۔ تمام انصار ان ہی دو کے خاند ان سے ہیں جیساکہ پہلے آچکا ہے، یہود کا چونکہ بڑا اقتدار و زور تھا اس لئے قبیلہ اَوْس وخَزْرَج آخر کار ان کے حلیف بن گئے۔یہود اہل کتاب اور صاحب علم تھے، اَوْس وخَزْرَج نے جو بت پرست تھے ان سے سنا ہو اتھا کہ ایک اور پیغمبر عنقریب مبعوث ہونے والا ہے اس لئے جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حسب معمول د عوت اسلام دی تو خَزْرَج کے چھ اشخاص نے آپ کے حالات پر غور کر کے ایک دوسرے سے کہا کہ ’’ واللّٰہ! یہ تو وہی ہیں جن کا ذکر ہم نے یہودِمَد ینہ سے سنا ہوا
ہے، کہیں یہود ہم سے سبقت نہ لے جائیں ۔ ‘‘ اس لئے وہ سب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر ایمان لا ئے، انہوں نے مدینہ میں پہنچ کر اپنے بھائی بندوں کو اسلام کی دعوت دی۔آیندہ سال بارہ مرد اَیام حج میں مکہ میں آئے اور انہوں نے عقبہ کے متصل آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہاتھ پر عورتوں کی طرح بیعت کی کہ ہم اللّٰہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے، چوری نہ کریں گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گے، زنا نہ کریں گے، بہتان نہ لگائیں گے، کسی امر معروف میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی نافرمانی نہ کریں گے۔ چونکہ عورتوں سے ان ہی باتوں پر بیعت ہوئی تھی اس لئے بیعت مذکورہ کو عورتوں کی سی بیعت کہا گیا، اس کو بیعت ِعَقَبَہ اُولٰی یعنی عقبہ میں اوّل مرتبہ بیعت بولتے ہیں ۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان بارہ کے سا تھ مُصْعَب بن عُمیربن ہاشم بن عبدمَناف کو بدیں غرض بھیجا کہ ان کو تعلیم اسلام دیں ۔ حضرت مُصْعَب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اَسعد بن زُرَارہ کے مکان پر قیام کیا پھر ان کو ساتھ لے کر بنی عبد الا َشْہَل اَوسی میں آئے، اس قبیلہ کے سردار سعد بن معاذاور اُسَیْد بن حُضَیر آپ کے سمجھا نے سے ایمان لا ئے اور ان کے ایمان لا نے سے سارا قبیلہ مسلمان ہو گیا۔ (1) بقولِ مشہور اسی سال ماہ رجب کی ستا ئیسویں رات کو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو حالت بیداری میں جسد شریف کے ساتھ معراج شریف ہوا اور پانچ نمازیں فرض ہو ئیں ۔
نبوت کے تیر ہو یں سال ایا م حج میں انصار کے ساتھ ان کی قوم کے بہت سے مشرک بھی بغرض حج مکہ میں آئے، جب حج سے فارغ ہوئے تو ان میں سے تہتر73 مر داوردو2 عورتیں اپنی قوم سے چھپ کر ایامِ تشریق میں رات کے وقت عقبہ منیٰ میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس وقت حضرت عباس بن عبدالمُطَّلِب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو اَب تک اسلام نہ لائے تھے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ تھے، سب سے پہلے وہی بولے: ’’ اے گر وہ خَزْرَج! محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) اپنی قوم میں معزز ہیں اور اپنے شہر میں مدد گاروں کی ایک جماعت ساتھ رکھتے ہیں ، ہم نے ان کو دشمنوں سے بچایاہے اگر تم اپنے عہد کو پورا کر سکو اور ان کا ساتھ دے سکو تو بہتر ورنہ ابھی سے ان کا ساتھ چھوڑ دو۔ ‘‘ اس کے بعد آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کو دعوت اسلام دی اور فرمایا کہ میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم مجھ سے وہ چیز بازرکھو گے جو اپنے اہل وعیال سے بازر کھتے ہو۔یہ سن کر سب سے پہلے بَرَاء بن مَعْرور اَنصاری خَزرَجی نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا دست مبارک پکڑ کر کہا: ’’ ہمیں
منظور ہے یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمیں بیعت کر لیجئے! واللّٰہ! ہم اہل حرب واہل سِلاح ہیں ، یہی چیزیں باپ دادا سے ہمیں ور ثہ میں ملی ہیں ۔ ‘‘ ابو الہَیثَم بن تَیِّہَا ن اَنصاری اَوسی نے قطع کلام کرکے عرض کیا: ’’ یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم یہود سے ہمارے تعلقات ہیں جو بیعت سے ٹوٹ جائیں گے، ایسانہ ہو کہ جب اللّٰہ آپ کو غلبہ دے تو آپ ہمیں چھوڑ کر اپنی قوم میں چلے جائیں ۔ ‘‘ آپ نے مسکرا کر فرمایا: ’’ نہیں ! تمہارا خون میرا خون ہے، میرا جینا مر نا تمہارے ساتھ ہے، میں تمہارا ہوں اور تم میرے ہو، تمہارا دشمن میرا د شمن اور تمہارا دوست میرا دوست ہے۔ ‘‘ اس طرح جب وہ بیعت کے لئے آمادہ ہو گئے تو عباس بن عُبادہ بن نَضْلہ اَنصاری خَزْرَجی نے ان سے کہا: ’’ یہ بھی خبر ہے تم محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) سے کس چیز پر بیعت کر رہے ہو، یہ عرب وعجم سے جنگ پر بیعت ہے، اگر تمہارا خیال ہے کہ جب تمہارے مال تاراج ہوں اور تمہارے اشراف قتل ہوں ، تم ان کا ساتھ چھوڑ دو گے تو ابھی سے چھوڑ دو اور اگر ایسی مصیبت پر بھی ساتھ دے سکو تو بیعت کر لو۔ ‘‘ سب بولے: ہم اسی بات پر بیعت کرتے ہیں مگر یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اگر ہم اس عہد پر ثابت رہیں تو ہمیں کیاملے گا ؟ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: بِہِشْت۔یہ سن کر سب نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی اسے عقبہ کی بیعت (1) ثانیہ کہتے ہیں ۔ بیعت کے بعد آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان میں بارہ اشخاص کو نقیب مقرر کیا، جن کے نام خود انصار نے پیش کیے اور ان سے یوں خطاب فرمایا: ’’ تم اپنی اپنی قوم کے حالات کے کفیل ہو، جیسا کہ حواری حضرت عیسیٰ ابن مر یم (عَلَیْہِمَا السَّلَام) کے تھے اور میں اپنی قوم کا کفیل ہوں ۔ ‘‘ وہ بولے کہ ہاں ! منظور ہے۔اس کے بعد وہ اپنے اپنے ڈیر وں پر چلے گئے۔ صبح کو قریش ان سے کہنے لگے: ہم نے سنا ہے کہ تم نے ہمارے ساتھ جنگ کر نے پر بیعت کی ہے؟ ان کے مشرک ساتھیوں نے کہا کہ کوئی ایسی بات نہیں ہو ئی، یہ سن کر قریش واپس چلے گئے مگر تفتیش کے بعد حقیقت حال جو ان کو معلوم ہوئی تو انہوں نے انصار کا تعاقب کیا۔ صرف سعدبن عبادہ ان کے ہاتھ آئے، ظالموں نے ان ہی کے اونٹ کے تَنگ (2) سے ان کے ہاتھ گر دن سے جکڑ لئے اور مار تے پیٹتے اور سر کے بالوں سے گھسیٹتے ہوئے ان کو مکہ میں لے آئے وہاں جُبَیر بن مُطْعِم بن عَدِی اور حارِث بن حَرب بن اُمَیَّہ نے ان کو چھڑایا۔ (3)
________________________________
1 – جب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہجرت فرما کریہاں تشریف لائے تو اس کا نام مَدینۃُ النبیپڑ گیا اور اب مدینہ کہتے ہیں ،حدیث میں اسے یثرب کہنے کی ممانعت ہے۔ علمیہ
2 – تباہ کن سیلاب۔