ائمۂ ہُدٰی کے ساتھ ٹھکانہ:
مسلمہ بن عبدالملک کا بیان ہے کہ میں نے حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیزرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کے بعدآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خواب میں دیکھ کر پوچھا:” اے امیر المؤمنین! کیسے حالات پیش آئے ؟”ارشاد فرمایا: ”اے مسلمہ! اب میں فارغ ہوں، بخدا میں نے دُنیا میں کبھی آرام نہ کیا۔” میں نے عرض کی: ”اے امیر المؤمنین! آپ اس وقت کہاں ہیں؟”جواب دیا: ”میں ہدایت یافتہ اماموں کے ساتھ جنتِ عدن میں ہوں۔”
(تاریخ دمشق ،الرقم۵۲۴۲، عمر بن عبد العزیز، ج ۴۵،ص۲۶۲)
سبزپرچہ:
حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ رات کے وقت غیر آباد مساجد میں تشریف لے جاتے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے نمازپڑھتے رہتے۔ جب سحری کا وقت ہوتا توپیشانی زمین پر رکھ دیتے اور مِٹی پر اپنے رخسارملنے
لگتے اور پھر طلوعِ فجر تک روتے رہتے ۔اسی طرح جب ایک رات اپنی عادت کے مطابق انہوں نے کیا اور پھر جب فارغ ہو کر سر اٹھایا تو ایک سبز پرچہ ملا جس کا نور آسمان تک پھیلاہوا تھا۔اس پر لکھا تھا:
”ھٰذِہٖ بَرَاءَ ۃٌ مِّنَ النَّارِ مِنَ الْمَلِکِ الْعَزَیْزِ لِعَبْدِہٖ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ” یعنی خدائے مالک وغالب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے یہ ”جہنم کی آگ سے بَرَاءَ ت نامہ ”ہے جو اس کے بندے عمر بن عبدالعزیز کو عطا ہوا ہے۔”
(تفسیر روح البیان، سورۃ الدخان ،تحت الایۃ۳،ج۸ ص۴0۲)
وَصَلَّی اللہ عَلٰی سیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِہٖ وَ صَحْبِہٖ اَجْمَعِیْن