آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فکر ِ آخرت:
حضرت سیِّدُنا سفیان ثوری رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ خاموش بیٹھے تھے جبکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دوست گفتگو میں مشغول تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عر ض کی گئی، ”اے امیر المؤمنین!آپ کو کیا ہوا کہ آپ کلام نہیں فرما رہے؟” تو آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا: ”میں اہلِ جنت کے متعلق سوچ رہاہوں کہ وہ جنت میں کیسے ایک دوسرے کی زیارت کریں گے؟ اور اہلِ دوزخ کے بارے میں سوچ رہا ہوں کہ وہ جہنم میں کیسے چِلاّئیں گے؟” پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رونے لگے۔”
(الموسوعۃ لابن ابی الدنیا،کتاب الرقۃ والبکاء،الحدیث۶۴،ج۳، ص۱۸۲)
آنسوؤں سے پرنالہ بہہ پڑا:
خراسان کے ایک بزرگ کا بیان ہے کہ جب خلیفہ ابوجعفر منصور نے بیت ُ المُقَدَّس جانے کا ارادہ کیاتو انہوں نے ایک ایسے راہب کے پاس پڑاؤ کیا جہاں حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی پڑاؤ کیا ہوا تھا۔اس نے راہب سے پوچھا: ”اے راہب! مجھے یہ بتاؤ کہ تم نے حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) میں سب سے عجیب بات کون سی دیکھی؟” تو اس نے جواب دیا:”جی ہاں! اے خلیفہ ! ایک را ت حضرت عمر بن عبدالعزیز(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)میرے اس کمرے کی سنگ ِ مَرمَر سے بنی ہوئی چھت پر تھے اور میں اس کے نیچےگُدِّی (یعنی گردن کے پچھلے حصے )کے بَل لیٹا ہوا تھاکہ اچانک پرنالے سے پانی کے قطرے میرے سینے پر گرنے لگے ۔ میں نے سوچا، ”اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! نہ میرے پاس پانی ہے اور نہ ہی آسمان سے برس رہا ہے۔” چنانچہ، حقیقتِ حال سے آگاہی کے لئے میں چھت پر چڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ عمر بن عبدالعزیز (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سجدہ ریز ہیں اور آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)کے آنسو پرنالے سے نیچے گر رہے ہیں۔”
(المرجع السابق، الحدیث۱۲۷،ج۳، ص۱۹۶)
حضرت سیِّدُنا حَسَن بن حَسَن رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ”میں نے حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خون کے آنسو روتے دیکھاہے۔”
(الزھد للامام احمد بن حنبل،اخبار عمر بن عبد العزیز،الحدیث۱۶۸۹،ص۲۹۸)
منقول ہے کہ جب سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عہدۂ خلافت سپرد کیا گیاتب سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمارت میں اضافہ ہوا، نہ جانوروں میں او ر نہ ہی بیویوں یا لونڈیوں میں۔یہاں تک کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کو پیارے ہو گئے۔
بقیہ۔۔۔۔۔۔مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ”حدیث شریف میں ہے کہ” روزِ قیامت بندہ جگہ سے ہِل نہ سکے گا جب تک چار باتیں اس سے نہ پوچھ لی جائیں۔ ایک اس کی عمر کہ کس کام میں گزری، دوسرے اس کا علم کہ اس پر کیا عمل کیا، تیسرے اُس کا مال کہ کہاں سے کمایا؟ کہاں خرچ کیا؟ چوتھے اس کا جسم کہ اس کو کس کام میں لایا؟”
حضرت سیِّدُنا عمر بن مہاجر علیہ رحمۃاللہ الناصر فرماتے ہیں: حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے حکم فرمایا کہ جب مجھے حق سے ہٹتاپاؤ تو اپنے ہاتھ میرے گریبان میں ڈال کر جھڑکتے ہوئے کہنا، ”اے عمر! کیا کر رہے ہو؟”
(حلیۃ الاولیاء،عمر بن عبد العزیز،الحدیث۷۲۷۲ ، ج۵،ص ۳۲۶)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!انتہائی تعجب کی بات ہے کہ حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کامل ہونے کے باوجود اس قدر خوف رکھتے تھے او ر تم ناقص ہونے کے باوجود کتنے بے خوف ہو؟دُنیا آخرت کا آئینہ ہے، جو دنیا میں کرو گے آخرت میں دیکھو گے، آج عمل کروگے کل دیکھو گے، اگرتم عقل مند ہو تو اپنے برے اعمال پر رویا کرو اور اگر غفلت کی نیند میں ہو تو عنقریب نیند کی یہ لذت تم سے دُورچلی جائے گی۔
اے میرے اسلامی بھائیو! دُنیاجب سَلَف صالحین کے پاس آتی ہے تو وہ اسے آخرت کے لئے آگے بھیج دیتے ہیں۔ ہمارا اُن سے کیا موازنہ ہے؟ ہم میں سے کتنے شب بیداری کرتے اور کتنے خوابِ غفلت میں رات گزار دیتے ہیں۔